مضمون: سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منتخب پہلو: محبت
انتساب: ان تمام لوگوں کی عقیدت اور تڑپ کے نام جو سیرت پر لکھنا چاہتے ہیں پر نہیں لکھ پاتے۔۔!
تحریر: محمد نعمان بخاری
۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
بندہ ایک ہو،،محبوب ایک ہو۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے پانے کے خواہش مند ایک سے زیادہ ہوں،، تو وہ آپس میں رقیب کہلاتے ہیں۔۔ ہوتے تو وہ ایک ہی شخص پر فِدا ہیں مگر ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں،، ایک دوسرےکے نقصان کے درپے ہوتے ہیں۔۔ محبوب سےتعلق رکھنے کی خاطر رقیب کیلئے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک فطری اَمر ہے۔۔ اس جذبے نے دنیا میں بہت فساد پھیلایا،، بہت خرابہ کیا۔۔ کوئی دن ایسا بتا دیجئے جب اخبار میں رقیبوں کے منفی کارناموں پر خبر نہ چلی ہو۔۔ یہ معمول ہے۔۔ انسان مجبور ہے اپنی اس خصلت پر لگام نہ ڈالنے پر۔۔!
تاریخ کی بے کنار زمین پہ کھڑا زیرِ فلک نظر بھگاؤں تو قربان کیوں نہ جاؤں اُس عفیف ہستی پر۔۔ بندہ ایک ہے،، محبوب ایک ہے۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے اپنانے کے طالب لاکھوں نہیں کھربوں میں ہیں۔۔مگر وہ سب رقیب نہیں بلکہ آپس میں رفیق ہیں۔۔ ہو گی کسی معاملے پہ نفرت،، کسی بات پہ دشمنی ہو گی،، کسی مسئلے پہ چپقلش بھی ہوگی۔۔ لیکن جب نام آئے گا میرے محبوب ﷺ کا،، سیدُ المرسلینﷺ کا۔۔ تو سب عداوت کافور،، سب رقابت ختم۔۔ کمال ہے،، بے حد کمال ہے۔۔ یہ کیسا دلرُبا ہے جس نے کروڑوں دِلوں کو ایک مشترکہ مرکز فراہم کر دیا۔۔ یہ کیسا مکرّم ہے جس نے انسانیت کو ایک نقطۂ اتحاد سے نواز دیا۔۔ یہ کیسی ذاتِ گرامی ہے جس کا نامِ نامی آتے ہی سارے انتقامی جذبے ماند پڑ جاتے ہیں،، محبت جاگ اٹھتی ہے،، دل جُڑ جاتے ہیں۔۔ ارے مقامِ حیرت تو دیکھئے کہ خون کے پیاسے خونِ جگر دے رہے ہیں اور جان کے دشمن جان لٹانے پہ آمادہ۔۔ انسانیت کے تمام صالح اوصاف کو انکی اعلیٰ ترسطح پہ ایستادہ کیا جائے تو وہاں رسول الراحہ ﷺ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔۔ پاکیزہ ترین تصور کی تان کو کھینچ کےبے لوث محبت کی منتہیٰ تک لے جایا جائے تو وہاں صاحبِ معراج ﷺ جلوہ افروز ہوں گے۔۔ میں خالقِ زمان و مکاں کی تخلیقی وسعتوں پر حیرت کناں تو تھا ہی،، اسکی رفعتوں کا پہلے سے بھی زیادہ معتقد ہو گیا جب اُس نے اشرف الانبیاءﷺ کو مبعوث فرما کر انسانیت پر اپنے احسانوں اور محبتوں کی حد کردی۔۔ اور پھر حاکمِ بحروبر کی اپنے حبیب ﷺ کیساتھ محبت دیکھئے کہ شرقین سے غربین تک اُس کے پاک نام کے ساتھ اگر کسی اور نام کی گونج ہے تو وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔۔ ارض و سماوات کے ہر نہاں خانے میں ربِ قدوس کی تقسیم کردہ محبت کا ہر ذرہ اپنی منزل پہ پہنچنے سے پہلے درِ اقدسِ قاسم ﷺ کا بوسہ لے کر آتا ہے۔۔ رب کے عالمین میں جہاں کہیں محبت کی کوئی کرن موجود ہے،، وہ ضیاء پاتی ہے آفتابِ نبوت ﷺ سے۔۔ حتیٰ کہ مجھے اگرآپ سے محبت ہے،، تو یہ عکس ہے اُس محبت کا جو ہمیں آقا ﷺ سے نصیب ہے۔۔ آپ کو اگر مجھ سے پیار ہے،، تو یہ سایہ ہے اُس محبت کا جو ہمیں سرکار ﷺ کی ذاتِ عالی سے ہے۔۔!
آخر ایسا کیوں ہوا کہ مومن کو اس قدر محبت ہو گئی نبئ محترم ﷺ سے کہ کفر پکار اُٹھا،، ''قلبِ مومن سے روحِ محمد نکال لو تو اسلام کا وجود ختم ہو جائیگا''؟
ایک ضابطہ ہے محبت کا کہ کسی کو جتنی محبت دو گے،، بدلے میں اس سے کم محبت نہیں ملے گی۔۔ انسان تو انسان،، آپ جانور کو پیار کی تھپکی دیں تو وہ آپ سے مانوس ہو جاتا ہے،، آپکا تابع ہو جاتا ہے۔۔ یہ محبت اونچائی سے گہرائی کی طرف سفر کرتی ہے،، اور ردّ عمل میں نیچے سے واپس بلندی کی طرف لوٹتی ہے۔۔ رب نے اپنے کلام میں طے کردیا ہے کہ ''یُحبھم ویحبونہ''۔۔ (اللہ اُن سے محبت کرتا ہے، اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)۔۔ یعنی ابتداء اللہ کریم کی طرف سے ہوتی ہے محبت کی۔۔ میں انگشت بدنداں ہوں کہ کس قدر شدید پیار کیا ہے شفیع المذنبینﷺ نے انسانیت سے،، کہ جواباً ایک ادنیٰ سا مسلمان اپنے جسم کے چیتھڑے تو اُڑوا دیتا ہے مگر شانِ رسالت پر غبار کا ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔ عالمِ تخیل میں کسی طرح محبت کو ایک جگہ اکٹھاکر دیا جائے،، گر اسے کسی تصویر میں ڈھالا جاسکے،، تو محبوبِ ربانیﷺ کی صورت و شباہت بنے گی۔۔ یعنی مصورِ کونین نے خیرالبشرﷺ کو مجسمِ محبت بنا دیا ہے،، محورِ رفاقت کر دیا ہے،، مرکزِ الفت ٹھہرا دیا ہے۔۔ حیاتِ طیبہ کے تمام واقعات پڑھ لیں،، سیرت مبارکہ کے تمام پہلو دیکھ لیں،، محبت ہی محبت ہیں۔۔ ولادت باسعادت سے لیکر وصال مبارک تک کی سوانح محض ہادئ عالم ﷺ کے شب و روز کی تصویر کشی نہیں،، بلکہ یہ خدا کے کلام کی وہ عملی تفسیر ہے جسے خالقِ کُن نے اپنے محبوب کی شکل میں کھینچا ہے۔۔ ہم سے مطالبہ صرف یہی ہے کہ ہم جوابِ محبت میں سرورِ دوعالم ﷺ کی سیرتِ عظمیٰ کے متبرک سانچے میں ڈھل جائیں۔۔ یہی راہِ نجات ہے،، یہی صراطِ الفت ہے،، یہی پیغامِ محبت ہے۔۔!!
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔