میں دیارِغیر میں جس جگہ رہائشی ہوں وہاں قطار میں پردیسی دوستوں کے متعدد کمرے ہیں۔۔چند دن قبل جب میں اپنے کمرے سے نکلا تو وہ حسبِ معمول باہر صوفے پر براجمان تھا۔۔مجھے دیکھ کر مسکرایا اور وہی بات دہرائی جو اکثر کہتا رہتاہے۔۔ میں نے بھی وہی جواب دیا جسکی اسے توقع تھی،، یعنی مسکرا کر ہاتھ سے 'نہ' کا اشارہ۔۔ اور میں مسجد میں عشاء کی نماز کیلئے داخل ہو گیا۔۔!
نماز کے بعد میں مسجد سے کمرے میں جانے لگا تو اُس نے مجھے زبردستی روک لیا اور پوچھا، "یار تم آخر میرے لئے دعا کیوں نہیں کرتے، اور ہمیشہ انکار میں ٹال جاتے ہو؟"
میں نے کہا: "کیا دعا کروں تمہارے لئے؟"
کہنے لگا: "یہی کہ اللہ مجھے بھی نماز کی توفیق دے،، اور تم ہر دفعہ 'ناں بھئی' کہہ دیتے ہو۔۔ دعا کرنے میں کیا حرج ہے بھلا؟"
میں نے کہا: "کس سے دعا کروں؟"
وہ حیرانی سے بولا: "دعا کس سے کرتے ہیں؟ ظاہر ہے اللہ سے کرو"
میں نے کہا: "کس اللہ سے؟ اُسی اللہ سے جس کا حکم ماننے سے تم نے انکار کیا ہوا ہے؟"
وہ چونکا۔۔۔۔
میں نے اپنی بات جاری رکھی: "فرض کرو تمہارا منیجر تمہیں کوئی اہم کام سونپے، تو تم کیا کرو گے؟ کیا اسکی بات فوراً مان لو گے؟ اِس ڈر سے کہ کہیں وہ تمہیں کمپنی سے نکال ہی نہ دے۔۔ یا پھر میرے پاس آؤ گے کہ بھئی منیجر نے مجھے فلاں کام کہا ہے،تو یار، تم منیجر کو کہو کہ ، منیجر صاحب۔۔جمیل یہ کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کہو کہ جمیل یہ کام کر لے"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" وہ جھنجھلا کربولا۔
میں نے کہا: "مجھے بات مکمل تو کر لینے دو یار "
وہ ہنس کر بولا: "اچھا اچھا ، جھاڑو اپنی فلا سفی۔۔"
میں بولا: "ہاں تو، ظاہر ہے کہ تم مجھے ایسا کبھی نہیں کہو گے کہ میں جا کر دوبارہ منیجر سے کہوں کہ منیجر صاحب !جمیل آپکا حکم نہیں ماننا چاہ رہا، اسے فلاں کام کیلئے دوبارہ کہیں۔۔۔ تو کیا سوچے گا منیجر، اور تمہارا کیا حشر کرے گا۔۔"
وہ میری'منطق' سن کر دلچسپی سے کہنے لگا: "اپنی بات کُھل کر کہو، میرا دماغ اتنا کام نہیں کرتا"
میں فلاسفی کو سہل کرتے ہوئے اسے اصل پوائنٹ پر لے آیا: "دیکھو بھئی، بات سیدھی سی ہے۔۔ اللہ نے تمہیں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ نماز پڑھنے کا کہا ہے قرآن میں،، حالانکہ ایک دفعہ کہہ دینا ہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے تھا۔۔ لیکن وہ اتنا کریم ہے کہ اس سب کے باوجود بھی تمہیں ہردن میں20 دفعہ اپنے گھر میں بلاتا ہے، نماز کیلئے۔۔ تمہاری فلاح کیلئے۔۔"
وہ اب مکمل سنجیدہ ہو کر سُن رہا تھا۔۔۔۔
"تم نے کلمہ طیبہ پڑھ کر خود ہی تو اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ یا اللہ تُو ہی میرا معبود ہے۔۔ میں اب ہمیشہ تیری عبادت کروں گا۔۔ یہ اقرار نامہ بھول گئے ہو کیا؟
اب تم ہی مجھے بتاؤ کہ میں کس منہ سے اللہ سے کہوں کہ وہ تمہیں نماز کی توفیق دے؟ جبکہ وہ تمہیں پہلے سے ہی توفیق دے چکا ہے۔۔ یعنی تم اذان سن سکتے ہو،، تمہارے پاؤں سلامت ہیں،، ہاتھ موجود ہیں،، اللہ نے دیکھنے اور چلنے کی قوت بھی دی ہوئی ہے،، جا کر وضو کر سکتے ہو۔۔ تو پھر اور کیا توفیق دے تمہیں؟؟ اب آسمان سے فرشتے تو آنے سے رہے جو تمہیں زبردستی اُٹھا کر مسجد میں چھوڑنے جائیں گے۔"
وہ اپنا سر جھکائے جا رہا تھا۔۔۔۔
"میں اسی وجہ سے ہی کہتا ہوں کہ بھئی میں تمہارے لئے یہ دعا نہیں کر سکتا،، کہ کہیں گستاخی نہ کر بیٹھوں اُسکی بارگاہ میں۔۔ کل جب تم سے حشر کا پہلا سوال ہو گا کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے؟ تو صاف صاف کہہ دینا کہ یا اللہ، نہ تو میرے لیے کسی نے دعا کی تھی اور نہ ہی آپ نے مجھے نماز کی توفیق دی تھی،، تو کیسے پڑھتا؟؟"
اپنی تقریر جھاڑ کر میں تو کمرے میں چلا گیا اور وہ وہیں بُت بنا کھڑا رہا۔۔
کمرے میں جاکر میں نے اللہ کریم سے سرگوشی کی،، ''اے اللہ، میں نے اپنا فرض ادا کردیا،، اب تُو ہی کرم فرما کر اسکا ہاتھ تھام لے اور اسکے قلب کی اصلاح فرما۔۔''
تھوڑی دیر بعد جب میں ڈریس چینج کرکے کرکٹ گراؤنڈ جانے کیلئے باہر نکلا تو وہ نمازِ عشاء کیلئے وضو کر کے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کے وضو کے بعد کی دعا پڑھ رہا تھا،،
" اَشہدُ اَن لّا اِلٰہ اِلّااللہُ وَ اَشہدُ اَنَّ مُحمداً عبدہُ و رَسُولُہ "
میں گراؤنڈ کی جانب چلتا جا رہا تھا،، اور میری آنکھوں سے خوشی و تشکر کے آنسو رواں تھے۔۔!!
(تحریر: محمدنعمان بخاری)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔