Thursday, August 4, 2016

اختلاف اور انتشار میں فرق

0 comments

جب نبی کریم ﷺ محفلِ اصحاب کرامؓ میں کچھ ارشاد فرماتے تو کیا تمام مخاطبینؓ اُس بات کو ایک ہی ذہنی و علمی سطح پر قبول کرتے یا انکے آپسی فہم میں تغیر ہوتا تھا؟
ظاہر ہے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق حکمِ پیغمبرؐ کو حاصل کرتا تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی صحابیؓ نافرمانئ پیغمبر کا تصور لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق خلوصِ قلب سے فرمانبرداری پر کمربستہ ہو جاتا.. واقعاتِ صحابہؓ اور احادیث میں دیکھ لیجئے کہ فروعی "اختلاف" تو تھا مگر "انتشار" نہ تھا.. کیونکہ کوئی ایسا بندۂ مومن نہ تھا جو آقا علیہ السلام کے فرمان کی حکم عدولی کیلئے تاویل کرے.. تاویل اگر تھی بھی تو پیروئ حکم کیلئے تھی.. یہ ایک فائن لائن ہے جس سے فرقہ بازی کی بآسانی بیخ کنی کی جا سکتی ہے..!
آج اگر کوئی شخص یا گروہ شارعؑ کے کسی حکم یا سنت پر ایسی تاویل دے جس کا واضح مطلب اُس شرعی ضابطے کی پاسداری نہ کرنا ہو، بلکہ کسی طرح حکم سے جان چھڑانا اور سوادِ اعظم سے انحراف مقصود ہو تو اسےتفرقہ باز کہا جا سکے گا.. دوسری طرف دین کے نام پر خرافات اور نامعقولیات اپنانے کو جو فرد یا جماعت درست سمجھے، اُسے بھی تفرقہ باز ماننا چاہئے.. اس لحاظ سے میں ذاتی طور پر دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مکاتبِ فکر کو فرقہ پرست نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ تمام مسالک من حیثُ الجماعت تعمیلِ ارشاد پر راضی ہیں اور اپنے فقہی اجتہاد، فہم اور استعداد کے مطابق روبہ عمل ہیں.. اپنے نظریے یا مسلک کی مدلل ترویج کرنا بھی غلط نہیں بلکہ ان مسالک میں جو کوئی اپنے مسلک سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کو حقیر جانتا ہے یا انکی دل آزاری کو درست سمجھتا ہے، وہی دراصل انتشاری اور تفرقہ ساز کہلائے جانے کا حقدار ہے..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔