قریب سترہ برس ہو چلے کہ مجھے صوفیاء سے نسبت ہے.. میرے والد صاحب رحمہ اللہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں خلیفہ مجاز تھے.. جاننے والے جانتے ہیں کہ انکے شب و روز کس قدر نظم و ضبط میں مقید تھے.. بوقتِ تہجد جاگنے سے لیکر بعد از عشاء سونے تک کے اوقات میں مزاجِ شریعت کا بےحد لحاظ تھا.. نمازِ فجر سے قبل ذکرِ قلبی اور تلاوتِ قرآن، بعد فجر صبح کی سیر، بعد مغرب ذکرِ قلبی سفر وحضر میں انکے معمولات کا مستقل حصہ رہا.. اخبار کا گہرائی سے مطالعہ کرنا، سیاسی و ملکی حالات سے باخبر رہنا، ان پر تبصرہ کرنا، دنیاوی امور کو سلیقہ مندی سے سرانجام دینا اور خاندانی معاملات میں سلجھا ہوا برتاؤ انکی چند ایک صفات ہیں.. بلا کی ذہانت، نکتہ سنجی، معاملہ فہمی، مزاح طبعی اور حاضر جوابی میں ایسے نادر کہ بلامبالغہ ہر محفل کی جان تھے.. ملازمت میں فرض شناسی اور دیانتداری کی مثال تھے.. سُستی اور کاہلی تو گویا انہیں چھو کر نہیں گزر سکتی تھی.. امورِ خانہ داری سے لیکر شاعری، ادب شناسی، مضمون نویسی، خطابت اور تبلیغ تک کوئی ایسا کام نہیں جس میں انہوں نے داد نہ پائی ہو.. ایک ہی وقت میں استاد، طبیب، خطاط، مکینک، الیکٹریشن، مزدور اور اکنامسٹ ہونا ہر کسی کی ذات کا حصہ نہیں ہوتا، مگر وہ واقعتاً تھے.. ایسے ہی نہیں بیشمار لوگوں کو ان سے اپنے لیے مشورے لینے آنا پڑتا تھا.. اس تمہید کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ ایک صوفی جہاں دینی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے وہاں دنیاوی امور میں بھی اپنے کسی ہم عصر سے پیچھے نہیں ہوتا.. آپ کہیں گے کہ ہر صوفی ایسا نہیں ہوتا.. مگر میں کہوں گا کہ ہر صوفی میں موجود صلاحیتوں کو ذکراللہ کی برکت سے جِلا ملتی ہے.. وہ کسی بھی شعبے میں ہو، دیگر ساتھیوں سے کمزور نہیں ہو گا.. میں بےشمار ایسے صوفیاء کو جانتا ہوں جو اپنی اپنی فیلڈ میں بہت بہتر طریقے سے نہ صرف رزقِ حلال کما رہے ہیں بلکہ حرام کے شُبے سے بھی اجتناب کرتے ہیں،، اور ذکراذکار کے معمولات پر بھی کاربند ہیں.. میرے شیخ المکرم مولانا محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ علیہ کو ہی دیکھ لیں.. امورِ دنیا کا کونسا شعبہ ہے جو انکی دسترس سے باہر تھا.. شاعر تھے، ادیب تھے، کالم نگار تھے، کئی سفرناموں سمیت درجنوں کتب کے مصنف تھے، شکاری تھے، فائٹر تھے، کامیاب تاجر تھے، کسان تھے، حالاتِ حاضرہ پر ٹھوس رائے رکھتے تھے، قرآن کی تین مرتبہ تفسیر کی ہے جن میں سے دو مکمل چَھپ چکی ہیں، حکیم تھے اور سائیکل سے لیکر ہیلی کاپٹر تک چلانا جانتے تھے.. ساتھ میں شبِ زندہ دار بھی تھے، روشن سینہ رکھتے ہیں، طالبین کی روحانی تربیت کرتے اور انکی زندگی ایک مصروف ترین انسان کی زندگی سے عبارت تھی.. (ہزاروں میں سے صرف دو لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیں)..!
متعصب لوگو! صوفی ایک پُروقار اور باکردار شخصیت کا نام ہے.. یہ نہ میلا کچیلا لباس پہنتا ہے اور نہ فاخرانہ بناؤ سنگھار کرتا ہے.. یہ بند حجروں کا غلام نہیں ہوتا بلکہ میدانِ کارزار کا سپاہی ہوتا ہے.. یہ نہ صرف حسبِ حیثیت اچھا کھاتا ہے بلکہ حسبِ توفیق مخلوقِ خدا کو کھلاتا بھی ہے.. یہ ماحول سے مغلوب ہونے کی بجائے ماحول ساز ہوتا ہے.. یہ رہبانیت پسند نہیں بلکہ جہاندیدہ ہوتا ہے.. اسکا تعلق خدا اور اسکی خدائی سے ہمہ وقت رہتا ہے.. یہ جب اپنے عزیزوں کے درمیان کھلکِھلا کر ہنس رہا ہوتا ہے تب اپنے نفس کے تزکیے میں بھی مصروف ہوتا ہے.. یہ جب کمپیوٹر پروگرامنگ اور انجنئیرنگ کی پیچیدہ ڈرائنگز بنا رہا ہوتا ہے تب خدا کی یاد میں بھی غرق ہوتا ہے.. یہ جب زبان کو استغفار اور درود پاک سے معطر کررہا ہوتا ہے تب اسکا دل بھی ذکرِ خدا سے معمور ہوتا ہے.. یہ جب نیند کی آغوش میں بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوتا ہے تو ساتھ ہی اللہ اللہ ہو رہی ہوتی ہے..!
الزام تراشو! تم غلیظ درباریوں اور بدبو دار ملنگوں کو صوفیاء سے ملا کر اپنے اندھے مقلدوں کو کب تک دھوکے اور فریب میں رکھ سکو گے.. تم اپنے جھوٹ کو بظاہر خوشنما دلیلوں سے ہزار آراستہ کرلو، مگر حقیقت کو چھپا لینا ممکن نہیں ہے.. تم صرف اپنے جیسے لوگوں کو ہی اپنی دغابازی اور مکاری سے متاثر کر سکتے ہو..مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ "یہ منکرینِ تصوف اصل میں چور، ڈاکو اور راہزن ہیں جو دین کا ایک اہم جزو دین سے نکال دینا چاہتے ہیں".. یہ ہماری عبادات میں سے خلوص، یکسوئی، اطمینان اور خشوع و خضوع چھین لینا چاہتے ہیں..!
اے لوگو! اگر یہ مخالفین اپنے روزمرہ کے جائزہ کی اجازت دیں تو تم دیکھو گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو موسیقی کی دُھنوں پر مست ہو جانے کو پسند کرتے ہیں.. یہ مسلمانوں کو کثرتِ ذکر سے روکنے کے کئی ڈھنگ اپناتے اور سکھاتے ہیں.. انکی محفلوں میں اللہ اور رسول تک کے نام پر بےباک جملے کسے جاتے ہیں.. یہ لوگ شعارِ اسلام کا مذاق اڑانے میں ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے.. تضحیک و طنز انکے اقوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے.. یہ گزرے ہوئے مشاہیرِ اسلام کو اپنی عدالت میں بُلا کر انکا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں.. اگر کبھی انکو ٹوکا جائے تو یہ طرح طرح کی مضحکہ خیز تاویلوں سے اپنا دفاع کرتے ہیں.. یہ اسلامی تعبیرات کو منہ چِڑا کر ادا کرتے ہیں.. ایسے لوگ دراصل اپنے ضمیروں کو زندہ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں.. تزکیہ نفس اور اصلاحِ قلب کی فکر مٹ جائے تو یہی طبقہ وجود میں آتا ہے.. ہر عام بندہ تو فہمِ دین کا حامل نہیں ہوتا اور نہ مسائل و گرائمر کی باریکیوں کو سمجھنے کا اہل ہوتا ہے،، سو ایسوں کو ورغلانا کچھ مشکل نہیں.. بس بندوں کو ذرا سا باغی پن اور بظاہر غیرجانبداری کا احساس دلانا ہوتا ہے، حالانکہ غیرجانبداری دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے.. یہ عوام کو تصوف کے مشکل عالمانہ الفاظ میں الجھائے رکھتے ہیں.. اکثر لوگ بھی چونکہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں، تو وہ بھی پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں لفظ کا کیا مطلب ہے اور فلاں نے یوں کیوں کہا.. یہ محض اعتراض اور چسکے کیلئے پوچھا جاتا ہے.. جسکو تحصیلِ علم اور حقیقت شناسی کا شوق ہوتا ہے وہ بہت جلد ان گھمرگھیریوں سے نکل آتا ہے، کیونکہ کوئی ایسا سوال نہیں جسکا جواب دینا باقی ہو.. یہ لوگ اسلاف صالحین کا تذکرہ کرنے والے پر پھبتیاں کستے ہیں.. اس گروہ کا مِشن یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ لوگوں کو سچ لگنے لگے اور رہی سہی کسر قرآنی آیات کی من چاہی اور "عقلی" تعبیروں کے غلاف سے پوری کرو.. اپنی تحریروں کے ہر فقرے میں اتنا تضاد بھر دو کہ کوئی جواب دینے کی ہمت ہی نہ کرپائے.. اور یوں جواب نہ ملنے پر اپنی خودساختہ فتح کے جشن مناؤ.. اگر کوئی سرپھرا جواب دے ہی بیٹھے تو پہلے پہل یہ کہو کہ "یہ تو کوئی منطقی جواب نہ ہوا".. یا یوں کہو کہ "دراصل تم نے ہماری بات کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں".. جبکہ یہی لوگ صوفیاء و اسلاف کی کتب سے اپنے مطلب کی عبارتیں نکال کر انکو ٹھیک سے سمجھ لینے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں.. پھر آخر میں ایک لمبا ڈکار لے کر "المدد یا عقل" کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں.. اگر کوئی کہے کہ صاحب شرم کرو، یہ کیا حرکت کررہے ہو؟ تو فوراً کہتے ہیں کہ "حدِ ادب،، ذاتیات پر حملے کی اجازت نہیں دی جائیگی".. حالانکہ یہ لوگ صحابہ کرام تک پر الزامات لگانے سے باز نہیں آتے..!
دوستو! فتنہ کی ایک اہم نشانی یاد رہے کہ یہ ہر بات غلط نہیں کرتا.. یہ لوگوں کو توحید کے بیانوں سے گرماتا بھی ہے اور عشقِ رسول کی تقریروں سے تڑپاتا بھی ہے.. یہ انسانی حقوق کا رونا بھی روتا ہے اور معاشرے کی بھلائی کی باتیں بھی کرتا ہے.. پھر بیچ بیچ میں وہی "پھلجھڑی" چھوڑتا ہے کہ جس مقصد کیلئے اس نے تماش بین اکٹھے کیے ہوتے ہیں..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)