Sunday, August 21, 2016

صوفیاء کیسے ہوتے ہیں؟

0 comments
قریب سترہ برس ہو چلے کہ مجھے صوفیاء سے نسبت ہے.. میرے والد صاحب رحمہ اللہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں خلیفہ مجاز تھے.. جاننے والے جانتے ہیں کہ انکے شب و روز کس قدر نظم و ضبط میں مقید تھے.. بوقتِ تہجد جاگنے سے لیکر بعد از عشاء سونے تک کے اوقات میں مزاجِ شریعت کا بےحد لحاظ تھا.. نمازِ فجر سے قبل ذکرِ قلبی اور تلاوتِ قرآن، بعد فجر صبح کی سیر، بعد مغرب ذکرِ قلبی سفر وحضر میں انکے معمولات کا مستقل حصہ رہا.. اخبار کا گہرائی سے مطالعہ کرنا، سیاسی و ملکی حالات سے باخبر رہنا، ان پر تبصرہ کرنا، دنیاوی امور کو سلیقہ مندی سے سرانجام دینا اور خاندانی معاملات میں سلجھا ہوا برتاؤ انکی چند ایک صفات ہیں.. بلا کی ذہانت، نکتہ سنجی، معاملہ فہمی، مزاح طبعی اور حاضر جوابی میں ایسے نادر کہ بلامبالغہ ہر محفل کی جان تھے.. ملازمت میں فرض شناسی اور دیانتداری کی مثال تھے.. سُستی اور کاہلی تو گویا انہیں چھو کر نہیں گزر سکتی تھی.. امورِ خانہ داری سے لیکر شاعری، ادب شناسی، مضمون نویسی، خطابت اور تبلیغ تک کوئی ایسا کام نہیں جس میں انہوں نے داد نہ پائی ہو.. ایک ہی وقت میں استاد، طبیب، خطاط، مکینک، الیکٹریشن، مزدور اور اکنامسٹ ہونا ہر کسی کی ذات کا حصہ نہیں ہوتا، مگر وہ واقعتاً تھے.. ایسے ہی نہیں بیشمار لوگوں کو ان سے اپنے لیے مشورے لینے آنا پڑتا تھا.. اس تمہید کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ ایک صوفی جہاں دینی اعتبار سے مضبوط ہوتا ہے وہاں دنیاوی امور میں بھی اپنے کسی ہم عصر سے پیچھے نہیں ہوتا.. آپ کہیں گے کہ ہر صوفی ایسا نہیں ہوتا.. مگر میں کہوں گا کہ ہر صوفی میں موجود صلاحیتوں کو ذکراللہ کی برکت سے جِلا ملتی ہے.. وہ کسی بھی شعبے میں ہو، دیگر ساتھیوں سے کمزور نہیں ہو گا.. میں بےشمار ایسے صوفیاء کو جانتا ہوں جو اپنی اپنی فیلڈ میں بہت بہتر طریقے سے نہ صرف رزقِ حلال کما رہے ہیں بلکہ حرام کے شُبے سے بھی اجتناب کرتے ہیں،، اور ذکراذکار کے معمولات پر بھی کاربند ہیں.. میرے شیخ المکرم مولانا محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ علیہ کو ہی دیکھ لیں.. امورِ دنیا کا کونسا شعبہ ہے جو انکی دسترس سے باہر تھا.. شاعر تھے، ادیب تھے، کالم نگار تھے، کئی سفرناموں سمیت درجنوں کتب کے مصنف تھے، شکاری تھے، فائٹر تھے، کامیاب تاجر تھے، کسان تھے، حالاتِ حاضرہ پر ٹھوس رائے رکھتے تھے، قرآن کی تین مرتبہ تفسیر کی ہے جن میں سے دو مکمل چَھپ چکی ہیں، حکیم تھے اور سائیکل سے لیکر ہیلی کاپٹر تک چلانا جانتے تھے.. ساتھ میں شبِ زندہ دار بھی تھے، روشن سینہ رکھتے ہیں، طالبین کی روحانی تربیت کرتے اور انکی زندگی ایک مصروف ترین انسان کی زندگی سے عبارت تھی.. (ہزاروں میں سے صرف دو لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیں)..! 

متعصب لوگو! صوفی ایک پُروقار اور باکردار شخصیت کا نام ہے.. یہ نہ میلا کچیلا لباس پہنتا ہے اور نہ فاخرانہ بناؤ سنگھار کرتا ہے.. یہ بند حجروں کا غلام نہیں ہوتا بلکہ میدانِ کارزار کا سپاہی ہوتا ہے.. یہ نہ صرف حسبِ حیثیت اچھا کھاتا ہے بلکہ حسبِ توفیق مخلوقِ خدا کو کھلاتا بھی ہے.. یہ ماحول سے مغلوب ہونے کی بجائے ماحول ساز ہوتا ہے.. یہ رہبانیت پسند نہیں بلکہ جہاندیدہ ہوتا ہے.. اسکا تعلق خدا اور اسکی خدائی سے ہمہ وقت رہتا ہے.. یہ جب اپنے عزیزوں کے درمیان کھلکِھلا کر ہنس رہا ہوتا ہے تب اپنے نفس کے تزکیے میں بھی مصروف ہوتا ہے.. یہ جب کمپیوٹر پروگرامنگ اور انجنئیرنگ کی پیچیدہ ڈرائنگز بنا رہا ہوتا ہے تب خدا کی یاد میں بھی غرق ہوتا ہے.. یہ جب زبان کو استغفار اور درود پاک سے معطر کررہا ہوتا ہے تب اسکا دل بھی ذکرِ خدا سے معمور ہوتا ہے.. یہ جب نیند کی آغوش میں بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوتا ہے تو ساتھ ہی اللہ اللہ ہو رہی ہوتی ہے..!

الزام تراشو! تم غلیظ درباریوں اور بدبو دار ملنگوں کو صوفیاء سے ملا کر اپنے اندھے مقلدوں کو کب تک دھوکے اور فریب میں رکھ سکو گے.. تم اپنے جھوٹ کو بظاہر خوشنما دلیلوں سے ہزار آراستہ کرلو، مگر حقیقت کو چھپا لینا ممکن نہیں ہے.. تم صرف اپنے جیسے لوگوں کو ہی اپنی دغابازی اور مکاری سے متاثر کر سکتے ہو..مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ "یہ منکرینِ تصوف اصل میں چور، ڈاکو اور راہزن ہیں جو دین کا ایک اہم جزو دین سے نکال دینا چاہتے ہیں".. یہ ہماری عبادات میں سے خلوص، یکسوئی، اطمینان اور خشوع و خضوع چھین لینا چاہتے ہیں..!

اے لوگو! اگر یہ مخالفین اپنے روزمرہ کے جائزہ کی اجازت دیں تو تم دیکھو گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو موسیقی کی دُھنوں پر مست ہو جانے کو پسند کرتے ہیں.. یہ مسلمانوں کو کثرتِ ذکر سے روکنے کے کئی ڈھنگ اپناتے اور سکھاتے ہیں.. انکی محفلوں میں اللہ اور رسول تک کے نام پر بےباک جملے کسے جاتے ہیں.. یہ لوگ شعارِ اسلام کا مذاق اڑانے میں ذرا سی بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے.. تضحیک و طنز انکے اقوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے.. یہ گزرے ہوئے مشاہیرِ اسلام کو اپنی عدالت میں بُلا کر انکا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں.. اگر کبھی انکو ٹوکا جائے تو یہ طرح طرح کی مضحکہ خیز تاویلوں سے اپنا دفاع کرتے ہیں.. یہ اسلامی تعبیرات کو منہ چِڑا کر ادا کرتے ہیں.. ایسے لوگ دراصل اپنے ضمیروں کو زندہ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں.. تزکیہ نفس اور اصلاحِ قلب کی فکر مٹ جائے تو یہی طبقہ وجود میں آتا ہے.. ہر عام بندہ تو فہمِ دین کا حامل نہیں ہوتا اور نہ مسائل و گرائمر کی باریکیوں کو سمجھنے کا اہل ہوتا ہے،، سو ایسوں کو ورغلانا کچھ مشکل نہیں.. بس بندوں کو ذرا سا باغی پن اور بظاہر غیرجانبداری کا احساس دلانا ہوتا ہے، حالانکہ غیرجانبداری دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے.. یہ عوام کو تصوف کے مشکل عالمانہ الفاظ میں الجھائے رکھتے ہیں.. اکثر لوگ بھی چونکہ لکیر کے فقیر ہوتے ہیں، تو وہ بھی پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں لفظ کا کیا مطلب ہے اور فلاں نے یوں کیوں کہا.. یہ محض اعتراض اور چسکے کیلئے پوچھا جاتا ہے.. جسکو تحصیلِ علم اور حقیقت شناسی کا شوق ہوتا ہے وہ بہت جلد ان گھمرگھیریوں سے نکل آتا ہے، کیونکہ کوئی ایسا سوال نہیں جسکا جواب دینا باقی ہو.. یہ لوگ اسلاف صالحین کا تذکرہ کرنے والے پر پھبتیاں کستے ہیں.. اس گروہ کا مِشن یہ ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ وہ لوگوں کو سچ لگنے لگے اور رہی سہی کسر قرآنی آیات کی من چاہی اور "عقلی" تعبیروں کے غلاف سے پوری کرو.. اپنی تحریروں کے ہر فقرے میں اتنا تضاد بھر دو کہ کوئی جواب دینے کی ہمت ہی نہ کرپائے.. اور یوں جواب نہ ملنے پر اپنی خودساختہ فتح کے جشن مناؤ.. اگر کوئی سرپھرا جواب دے ہی بیٹھے تو پہلے پہل یہ کہو کہ "یہ تو کوئی منطقی جواب نہ ہوا".. یا یوں کہو کہ "دراصل تم نے ہماری بات کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں".. جبکہ یہی لوگ صوفیاء و اسلاف کی کتب سے اپنے مطلب کی عبارتیں نکال کر انکو ٹھیک سے سمجھ لینے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں.. پھر آخر میں ایک لمبا ڈکار لے کر "المدد یا عقل" کا فلک شگاف نعرہ لگاتے ہیں.. اگر کوئی کہے کہ صاحب شرم کرو، یہ کیا حرکت کررہے ہو؟ تو فوراً کہتے ہیں کہ "حدِ ادب،، ذاتیات پر حملے کی اجازت نہیں دی جائیگی".. حالانکہ یہ لوگ صحابہ کرام تک پر الزامات لگانے سے باز نہیں آتے..!
دوستو! فتنہ کی ایک اہم نشانی یاد رہے کہ یہ ہر بات غلط نہیں کرتا.. یہ لوگوں کو توحید کے بیانوں سے گرماتا بھی ہے اور عشقِ رسول کی تقریروں سے تڑپاتا بھی ہے.. یہ انسانی حقوق کا رونا بھی روتا ہے اور معاشرے کی بھلائی کی باتیں بھی کرتا ہے.. پھر بیچ بیچ میں وہی "پھلجھڑی" چھوڑتا ہے کہ جس مقصد کیلئے اس نے تماش بین اکٹھے کیے ہوتے ہیں..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Thursday, August 4, 2016

تخلیقِ کائنات کا سبب، رحمۃ للعالمین ﷺ اور ختمِ نبوت

0 comments
چلیں آج ایک نکتے پہ بات کرلیتے ہیں بشرطیکہ آپکی توجہ شامل رہے.. کائنات میں سب سے پہلے بلکہ یوں پوچھیں کہ کائنات سے بھی پہلے ''وجود'' کون تھا؟.. درست جواب ہے "اللہ جل شانہ".. 
آگے چلئے.. اتنا تو کسی بیوقوف کو بھی علم ہے کہ تخلیق کے لئے خالق کا ہونا لازم ہے.. مگر خالق نے تخلیق کیوں کی؟ بہت عجیب و غریب سوال لگتا ہے.. غور کریں تو اسکے علاوہ کوئی اور جواب نہیں بن پاتا کہ وجہِ تخلیق یا تخلیق کا سبب سوائے رحمتِ باری کے کچھ اور ہو.. جی ہاں، اللہ کی رحمت ہی کائنات کی تخلیق کا واحد اور منطقی سبب ہے.. فی الحال یہ ترتیب ملاحظہ رہے.. سب سے پہلے ذاتِ باری تعالی،، پھر اسکی رحمت،، اور پھر تخلیقِ کائنات.. یعنی تخلیق کیلئے رحمتِ باری اٹل ٹھہری..!
مزید آگے چلتے ہیں.. فرمانِ خداوندی دیکھئے: وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین.. "اور ہم نے آپ ﷺ کوعالمین کیلئے رحمت بنا کر بھیجا".. یہاں کچھ زیادہ غور کرنا پڑے گا، توجہ رہے.. سوال پھر وہی ہے،، تخلیق پہلے ہے یا رحمت؟.. جواب ہے "رحمت".. ہم سب کو پتہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تخلیق ہیں اور نہایت محبوب ترین تخلیق ہیں.. ساتھ ہی اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں.. ارے بھائی، رحمت ہو گی تو ہی تمام جہان بنیں گے ناں.. معلوم ہوا کہ وجودِ عالمین سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق ہو چکی تھی.. آپ سراسر رحمت ہی رحمت ہیں تمام تر مخلوقات کیلئے.. اب ترتیب کچھ یوں بنتی ہے.. سب سے پہلے ذاتِ باری تعالی،، پھر اسکی رحمت،، پھر ذاتِ مصطفیٰ،، پھر کائنات اور دیگر مخلوقات.. میرے نبی کی ذات سراپا رحمت ہے اور وجہِ تخلیقِ کائنات یہی رحمت ہی تو ہے.. تخلیق بہت پہلے اور سب سے اول ہو چکی تھی،، ظہور سب سے آخر میں ہوا.. تبھی تو کہتے ہیں کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر.. اسی آخر میں ظہور ہونے کی وجہ سے آپکا ایک خوبصورت لقب "خاتم الانبیاء" بھی ہے.. خاتم صرف اُسے نہیں کہتے جو سلسلہِ نبوت کا اختتام کرے،، بلکہ اسے کہتے ہیں کہ جس کی آمد کے بعد کسی اور کی حاجت ہی ختم ہو جائے.. اُس آخر میں آنے والے نے تمام تر انسانیت کیلئے کسی اور رحمتوں، برکتوں، سلامتیوں اور پیغاموں کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی، تو ضرورت کیوں پڑے؟ کیوں ضرورت پڑے میرے محبوب کی تشریف آوری کے بعد کسی جھوٹے اور مکار کو اس فریبی دعوے کی کہ "میں بھی نبی ہوں".. خالقِ کائنات نے اتنے حسین ترین اور اکمل ترین انسان کو انبیاء کا خاتم بنایا جسے وہ دوعالم کیلئے رحمت کہتا ہے.. وہ جس کے عالی اخلاقِ کریمانہ اس پائے کے ہوں جنہیں بلامبالغہ قرآن کہا جا سکے،، ایسی پاکباز ہستی کے مقابلے میں اگر کوئی بدخصلت اور خُلق سے عاری شخص کھڑا ہونے کی جرات بھی کرے تو اسکا حق ہے کہ اسے زندگی جیسی رحمت (جو کہ صدقہ ہے آقا علیہ السلام کا) سے محروم کردیا جائے،، یا اُس پر ایسا عذابِ خداوندی برسے کہ وہ خبیث الوقت بیت الخلاء کی غلاظت میں ڈوب مرے.. بالفرض وہ نئی نبوت کا دعویدار صدق و وفا کا پیکر ہو،، حسن و جمال سے آراستہ ہو،، علم و خلق میں یکتا ہو،، شرم وحیا کا منبع ہو،، تو کیا بخاری اسے نبی مان لے گا؟؟ کیا صرف اسلئے کہ وہ خود اپنے آپ کو نبی کہتا ہے تو میں اسے کیوں جھٹلاؤں؟؟ کیا صرف اس لئے میں اسکے ماننے والوں کو مسلم کہوں چونکہ وہ خود اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں؟؟ ارے ایسی کفریہ سوچ آئے ہی کیوں آمدِ مجتبیٰ کے بعد.. کیونکہ، فرما گئے یہ ھادی،، لا نبی بعدی..! 
پس اے وہ لوگو جو قادیانیت کو محض ایک فرقہ مانتے ہو..! گر دل سلامت ہے تو عقل کرو،، جذبہ باقی ہے تو ہوش کرو،، عشق زندہ ہے تو رجوع کرو.. انسانیت کی خیرخواہی مطلوب ہے تو غور کرو.. کہ ہم تو فقیرانہ آئے صدا کر چلے..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
‫‏ختمِ_نبوت_زندہ_باد‬

نبی کریم ﷺ کے ہوتے ہوئے شیخِ تصوف کی ضرورت کیوں ہے؟ شیخِ کامل کی پہچان کیا ہے؟

0 comments
پوچھا گیا:
آخر کیا ضرورت ہے کہ کسی کو شیخ/پیر تسلیم کرکے اسکی پیروی کی جائے جبکہ ہمارے لئے قرآن و سنت موجود ہیں جنکی پیروی کی جا سکتی ہے؟ پھر سب سے بڑے پیرِ کامل تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، انکے ہوتے ہوئے کسی اور سے تعلق استوار کیوں کریں؟
مزید پوچھا گیا:
شیخِ کامل کو کیسے تلاش کیا جائے؟ مطلب کہ کیسے پتہ لگے گا کہ فلاں شخص واقعی اصل شیخ ہے، کوئی جعلی عامل نہیں؟
.
جواباً عرض کی:
کیا آپ محض کتابیں پڑھ کرکوالیفائیڈ ڈاکٹر بن سکتے ہیں، جبکہ کسی ادارے میں استاد کی شاگردی اختیار نہ کرلیں؟ ہاں البتہ عطائی ڈاکٹر ضرور بن سکتے ہیں جو دوسروں کیلئے خطرۂ جان ہوتا ہے.. کیا آپ کسی سینئر وکیل کی سرپرستی کے بغیر وکالت سیکھ سکتے ہیں؟ اور یونیورسٹی میں چار سالہ انجینئرنگ کے بغیر آپکو کون بیوقوف انجینئر مانے گا؟ یہ تو سب دنیاوی ڈگریاں وتجربات ہیں، جنہیں آپ ٹیچر کے بغیر نہیں جان سکتے.. ہمارا موضوع تصوف ہے، جس میں برکاتِ نبوت کا حصول ایک مشن ہوتا ہے،، جس سے تعلیماتِ نبوت پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے.. برکاتِ نبوت کو آپ ایک Pushing Force سمجھ لیں جو آپکو آپکی خوشی و رضا سے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا کراتی ہیں.. یہ عبادات میں وہ کیفیات اورخلوص پیدا کرتی ہیں جسکے بارے میں اللہ کے حبیب ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: 'اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اللہ کو اپنے سامنےدیکھ رہے ہو، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا تو یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے'.. اس کیفیت کا حصول 'تصوف' ہے، جسکا پہلا اور آخری درجہ تزکیہِ قلب ہے.. اس تزکیہ کیلئے مزّکی/استاد کی ضرورت ہے جو روح کا اسپیشلسٹ طبیب ہوتا ہے.. سب سے عظیم اور کامل مزّکی ہیں حضرت محمد ﷺ.. آپکی شاگردی/صحبت میں آنے والے صحابہ کہلائے.. پھر صحابہ اپنے بعد والوں کے مزکی ہیں.. حصولِ تزکیہ کیلئے صحبت/حاضری شرطِ اوّل ہے، ورنہ حضرت اویس قرنیؒ آپ ﷺ کے ہم زمانہ ہونے کے باوجود صحابی نہ بن سکے.. صحابہ کے صحبت یافتہ تابعین اور تابعین کے زیرِ صحبت آنے والے تبع تابعین کہلاتے ہیں.. تصوف میں یہ اصول ہمیشہ سے جاری ہے کہ کسی ایسے شیخ کی محفل میں حاضری دی جائے جس نے سینہ بہ سینہ برکاتِ نبوت حاصل کی ہوں اور طالب کے دل میں انڈیل سکے، اور اسے منور کر دے.. اب آپکا یہ سوال کہ ''جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنتِ صحابہ کرام ہمارے پاس موجود ہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟''.. تو جناب، یہ پیروی ہوتی ہی قرآن و سنت کی اقتداء اور اس پر عمل کرنے کیلئے ہے.. شیخِ کامل خود سے کوئی نیا اسلام نہیں گھڑتا، بلکہ اُسی دین کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے دنیا میں اُتارا.. جہاں سےقرآن و سنت سے دامن چھوٹا اور روگردانی ہوئی، وہاں سے دو نمبر پیری مریدی شروع ہو جاتی ہے.. شیخ وہ استاد یا ذریعہ ہے جو بارگاہِ نبوت سے نہ صرف واقف ہوتا ہے بلکہ دوسرے کو بھی وہاں تک رسائی دلانے کی مِن جانب اللہ صلاحیت رکھتا ہے.. شیخِ تصوف وہ محبت و شوق بیدار کرتا ہے جو فرائض تو کیا سنت اور نوافل بھی نہیں چھوٹنے دیتا.. ورنہ پتہ تو سب کو ہے کہ نماز روزہ فرض ہے، لیکن کرنے سے قاصر ہیں.. جانتے ہیں، مگر عمل نہیں ہوپاتا.. کیا چیز مِسنگ ہے اور کہاں سے ملے گی؟ کسی اللہ والے کی محفل سے ملے گی..!
اب دوسرے سوال پہ آتے ہیں.. شیخِ کامل کی ایک عمومی پہچان یہ ہے کہ آپ اسکے ساتھ منسلک لوگوں کے کردار و افعال کا جائزہ لیں.. اگر زیادہ تر لوگوں کی زندگی دائرہِ شریعت میں ڈھلتی چلی جا رہی ہے اور وہ خرافات سے دور اور دینیات سے نزدیک ہوتے جارہے ہیں تو شیخ اصلی ہے، ورنہ ٹھگ ہے.. اسکے علاوہ کچھ لوازمات ہیں، جنہیں ذہن نشیں کر لیں..!
1: عالمِ ربانی ہو؛ کیونکہ جاہل کی بیعت کرنا حرام ہے. 
2: صحیح العقیدہ ہو؛ کیونکہ غلط عقیدہ اور تصوف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے.
3: شرک و بدعت کے قریب بھی نہ جائے؛ کیونکہ شرک ظلم اور بدعت گمراہی ہے،، شیخ نہ ظالم ہوتا ہے نہ گمراہ.
4: متبع سنتِ رسول ﷺ ہو؛ کیونکہ سارے کمالات پیروئِ سنت سے ہی حاصل ہوتے ہیں.
5: دنیا میں رہتے ہوئے بھی دل دنیا کی محبت سے خالی ہو؛ کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہ سکتیں، یا اللہ کی محبت ہو گی یا دنیا کی.. یاد رہے! دنیا کا مال و اسباب ہونا منع نہیں.. کئی صحابہ کرام بہت مالدار تھے، مگر حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتے تھے اور جائز مصرف پہ خرچ کرتے تھے.. مال و متاع میں کھو کر اللہ کو بھول جانا 'دنیا' ہے.
6: علمِ تصوف و سلوک میں کامل ہو؛ کیونکہ جس راہ سے واقف نہ ہو اس پر دوسروں کو کیسے گامزن کر سکتا ہے. 
7: شاگردوں کی تربیتِ باطنی کے فن سے واقف ہو اور کسی ماہرِ فن کا شاگرد ہو.
8: حضور پاک ﷺ سے روحانی تعلق قائم کردے جو اللہ اور بندے کے درمیان واحد واسطہ ہیں.
یہ آٹھ نشانیاں اگر خوب سمجھ لی جائیں اور طلب خالص ہو تو ان شاءاللہ آپکو کوئی ڈی ٹریک نہ کر سکے گا..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

اللہ سے محبت کیسے ہو؟

0 comments
ایک محترم بھائی نے سوال پوچھا: "اللہ سے محبت کیسے ہو؟"
عرض کی:
انسان کی کیا مجال ہے کہ وہ ایک بےنظیر و بےمثال اور حدودِ عقل میں نہ آنے والی ذات سے محبت کی صلاحیت حاصل کرسکے؟ 
قرآن مجید میں ایک جگہ محبت کی ترتیب و اصول بیان ہوا ہے.. یحبھم و یحبونہ.. "اللہ اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں".. یعنی ابتدا اللہ کریم کی طرف سے ہوتی ہے اور پھر بندہ اپنے ظرف اور حیثیت کے مطابق اللہ کریم سے جواباً محبت کرتا ہے.. اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کن سے محبت کرتا ہے؟ قرآن مجید میں بیسیوں آیات موجود ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ اللہ کے محبوب کون ہیں.. جیسا کہ توبہ کرنے والے، پاک صاف رہنے والے، صبر و توکل کرنے والے وغیرہ.. جتنا جتنا ہم ان خصوصیات کو اپناتے جائیں گے، اتنا اتنا اللہ کا قرب نصیب ہوتا جائیگا اور اللہ ہم سے محبت کرنے لگیں گے.. جواب میں ہم وہ قوت حاصل کریں گے کہ ہم مشتِ غبار بھی اللہ ربُ العزت سے محبت کرسکیں.. پھر ان خصوصیات پر استقامت اختیار کرنے سے محبت بڑھتی چلی جائیگی.. اِن خصوصیات کا حصول اُن اہلُ اللہ کی صحبت میں رہنے سے ہو گا جو ان خصوصیات کے حامل ہیں.. اور ایسے لوگوں کی صحبت بجائے خود اللہ کی محبت کا ایک مضبوط ذریعہ ہے.. یہ سب باتیں پیروئ سنت خیرالانام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی صورتیں ہیں.. سنت پر عمل کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رب کی محبت پانے اور رب سے محبت کرنے کا..!!
۔
محمد نعمان بخاری

اختلاف اور انتشار میں فرق

0 comments

جب نبی کریم ﷺ محفلِ اصحاب کرامؓ میں کچھ ارشاد فرماتے تو کیا تمام مخاطبینؓ اُس بات کو ایک ہی ذہنی و علمی سطح پر قبول کرتے یا انکے آپسی فہم میں تغیر ہوتا تھا؟
ظاہر ہے ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق حکمِ پیغمبرؐ کو حاصل کرتا تھا، مگر اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی صحابیؓ نافرمانئ پیغمبر کا تصور لیے نہیں ہوتا تھا، بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق خلوصِ قلب سے فرمانبرداری پر کمربستہ ہو جاتا.. واقعاتِ صحابہؓ اور احادیث میں دیکھ لیجئے کہ فروعی "اختلاف" تو تھا مگر "انتشار" نہ تھا.. کیونکہ کوئی ایسا بندۂ مومن نہ تھا جو آقا علیہ السلام کے فرمان کی حکم عدولی کیلئے تاویل کرے.. تاویل اگر تھی بھی تو پیروئ حکم کیلئے تھی.. یہ ایک فائن لائن ہے جس سے فرقہ بازی کی بآسانی بیخ کنی کی جا سکتی ہے..!
آج اگر کوئی شخص یا گروہ شارعؑ کے کسی حکم یا سنت پر ایسی تاویل دے جس کا واضح مطلب اُس شرعی ضابطے کی پاسداری نہ کرنا ہو، بلکہ کسی طرح حکم سے جان چھڑانا اور سوادِ اعظم سے انحراف مقصود ہو تو اسےتفرقہ باز کہا جا سکے گا.. دوسری طرف دین کے نام پر خرافات اور نامعقولیات اپنانے کو جو فرد یا جماعت درست سمجھے، اُسے بھی تفرقہ باز ماننا چاہئے.. اس لحاظ سے میں ذاتی طور پر دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث مکاتبِ فکر کو فرقہ پرست نہیں سمجھتا، کیونکہ یہ تمام مسالک من حیثُ الجماعت تعمیلِ ارشاد پر راضی ہیں اور اپنے فقہی اجتہاد، فہم اور استعداد کے مطابق روبہ عمل ہیں.. اپنے نظریے یا مسلک کی مدلل ترویج کرنا بھی غلط نہیں بلکہ ان مسالک میں جو کوئی اپنے مسلک سے اختلاف رکھنے والے مسلمانوں کو حقیر جانتا ہے یا انکی دل آزاری کو درست سمجھتا ہے، وہی دراصل انتشاری اور تفرقہ ساز کہلائے جانے کا حقدار ہے..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Monday, August 1, 2016

یومِ الست کا وعدہ

1 comments
ہمیں اچھی طرح یاد ہونا چاہئے کہ خدا نے تمام بنی آدم کو پُشتوں سے ظاہر فرما کر وقتِ الَست ایک اہم عہد لیا تھا کہ اَلستَ بِربکم.. (کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟).. ہم نے اپنی مرضی اور اختیار سے یہ اقرار کیا تھا کہ بے شک ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں.. تب خدا نے فرمایا تھا کہ اس بات کو بھول نہ جانا کہ روزِ قیامت کہنے لگو کہ ہم کو تو اسکی خبر ہی نہیں..!
کیا کہا؟ آپکو یاد نہیں ہے؟ واقعی؟ اچھا اپنا دائیاں کان میرے قریب کرو اور بائیں میں انگلی ڈالو.. یار ویسے آپس کی بات ہے کہ مجھے بھی یاد نہیں ہے،، تھوڑا سا بھی نہیں.. میں نے بہت دماغ لڑایا، بہتیرا سوچا، اپنے احساس کو دور، کہیں بہت ہی دور لے جانے کی جدوجہد کی،، کافی دیر آنکھیں موندے لائٹ بجھائے تخلیہ کیا.. مگر عہد ہے کہ مجال ہے ذرا یاد آ جائے.. پھر کیسے مان لوں کہ واقعتاً مجھ سے ایک ایسا وعدہ لیا گیا جسکی مجھے خبر ہی نہیں؟ کمال ہے بھئی،، یہ تو گویا سیاستدانوں والا وعدہ ہوا کہ جھٹ کیا اور پَٹ بھلا دیا..!
ہفتے کے روز مجھے دفتر سے چھٹی ہوتی ہے تو میں عموماً صبح کو دکان سے دودھ لینے چل نکلتا ہوں، اس بہانے ہفتہ وار مارننگ واک بھی ادا ہو جاتی ہے.. پچھلی بار جب میں دودھ لے کر واپس آرہا تھا تو راستے میں ایک دوست نے لفٹ دی اور رہائش تک چھوڑ گیا.. آج واپسی پہ وہ مجھے خواہ مخواہ یاد آگیا.. خیالوں پہ بھلا کس کا بس چلتا ہے، سو اگلا خیال یہ آیا کہ اُس دن ہم نے میس میں کونسا سالن بنایا تھا؟ ذہن پہ زور دیا تو یاد آیا کہ شاید آلو گوبھی پکائی تھی.. پھر خیال کوندا کہ اُس سے پچھلے ہفتے اور پھر اُس سے پچھلے ماہ ہم نے کیا کھایا تھا؟ ارے یہ کیا......! مجھے میری ایک پرانی خلش کا جواب مل رہا تھا جو ملحدین کے مباحثے میں تب پیدا ہوئی تھی جب میں ایک ملحد کے عہدِ الست پر اٹھنے والے اعتراض کا آسان فہم اسلوب میں ازالہ نہ کر سکا تھا..! 
میں نے اپنے مکمل ہوش، کلی اختیار اور پورے شعور کیساتھ جنوری کی تین تاریخ کو جو کچھ کیا تھا، اب میرے ذہن سے مٹ چکا ہے.. میں یکسر بھول گیا ہوں کہ میں مارچ کی انیس تاریخ کو کس کس سے کہاں ملا تھا اور میں نے کیا کچھ بولا تھا.. ہاں ایک طریقہ ہے یاد رکھنے کا کہ اپنے ہر لمحے کو کہیں لکھ کر محفوظ کر لیا جائے،، جیسا کہ میں نے میس میں پہنچ کر حساب والی کتاب اٹھائی، پچھلے ہفتے کا گوشوارہ دیکھا تو علم ہوا کہ اوہ، ہم نے آلو گوبھی نہیں بلکہ اپنے ذاتی فیصلے اور ارادے سے دال چنا پکائی تھی، جس کیلئے ہم پر کسی کا کوئی جبر اور پریشر نہیں تھا، پھر بھی نجانے کیونکر بھول گیا.. آپکو بدگمانی سے بچانے کیلئے واضح کرتا چلوں کہ ہم کھانے پینے کے معاملے میں کنجوس بالکل بھی نہیں ہیں، کیونکہ ہم نے ابھی کل ہی تو چکن بریانی اور پرسوں کڑاھی گوشت بنایا تھا.. مگر اگلے سال تک میں یہ سب بھول چکا ہوں گا..!
بھول جانا یا بُھلا دیا جانا ہم انسانوں کی ایک بِلٹ اِن خصلت ہے.. یہ کبھی ہمارے لیے انعام ثابت ہوتی ہے تو کبھی امتحان.. دارِ دنیا میں یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم عہدِ الست کے لمحے کو بھلا چکے ہیں،، بالکل ویسے جیسے ہمارے ماضی کے کئی واقعات ہمارے ذہن سے غیر ارادی طور پر محو ہو گئے ہیں.. لیکن فطرت سلیم رہے تو ہمارا ضمیر ہمیں ہمیشہ یاد دلاتا رہتا ہے کہ "خبردار! دیکھو تم عہد کی پاسداری نہیں کر رہے، یہیں رک جاؤ.." کہئے! یاد دلاتا ہے یا نہیں؟ اگر بالفرض نہیں دلاتا تو کتابِ مبین اُٹھا کے دیکھ لو.. یاد کرنے کی "نیت" سے پڑھو اور سوچو گے تو کتاب میں عہد نامے کی ساری شقیں لکھی پاؤ گے.. احساس کو جتنا چاہے وسیع اور پختہ کر لو، تب بھی ضروری نہیں کہ عین وہی منظر آپکو دِکھائی بھی دینے لگے.. جیسا کہ مجھے کماحقہ احساس اور حقیقی ادراک نہیں ہو پا رہا کہ کہ مجھ پہ نومبر دو ہزار تیرہ کی کسی خنک صبح کو کیا بیت رہی تھی، حالانکہ تب میں اپنے مکمل حواس میں تھا.. چلیں چھوڑ دیں یہ سب اُلجھی اُلجھی باتیں،، اگر آپ اتنے ہی لاپروا ہیں کہ خدا کی گواہی کو کافی نہیں سمجھتے تو پھر کچھ مزید دن عیاشیاں کر لیں.. کر لیں اپنی نفسانی خواہشات کی اندھی پیروی.. مہلت تمام ہونے اور سانسیں تھمنے کی دیر ہی تو ہے.. پھر "حساب کی کتاب" میں سب کہا سُنا اور کیا دھرا آنکھوں کے سامنے ہو گا.. پھر آپ جانو گے کہ اوہ واقعی، ہم سے ایک عہد تو لیا گیا تھا.. تب یہ نہ کہنا کہ "کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی.. کاش میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے.. کاش دنیاوی موت ہی میرے لیے فیصلہ کُن ہوتی.. وائے ناکامی، آج یہاں کوئی کسی کا یار اور غمگسار نہیں ہے." 
دراصل یہ صرف پرہیزگاروں کیلئے نصیحت ہے جو کتاب (نامہ اعمال) کے ملنے اور اپنے رب سے ملاقات ہونے پر کامل یقین رکھتے ہیں.. فھل مِن مدَّکر؟؟
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

کتبِ تصوف میں خلافِ شریعت عبارات اور نظریات کی حقیقت

0 comments
عقیدت میں غلو، جانبداری اور جذباتی وابستگی،،، تحقیق کے میدان میں یہ تین باتیں ایسی ہیں جو علمی دیانت کے خلاف ہیں اور حقیقت کو کبھی ظاہر نہیں ہونے دیتیں.. علم و تحقیق کیساتھ جو تنقید ہوتی ہے وہ علوم کیلئے آبِ حیات ہے.. اسلامی محققین کی فہرست میں ماضی قریب کی ایک شخصیت پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کی گزری ہے.. وسعتِ مطالعہ اور تبحرِ علمی کے اعتبار سے وہ ایک غیرمعمولی انسان تھے.. ان کا شمار اُن معدودے چند اشخاص میں ہوتا ہے جو تصوف کے معاملے میں افراط و تفریط سے محفوظ رہے.. وہ جہاں تصوف کے پُر زور حامی تھے، وہاں شدید ناقد بھی تھے.. انہوں نے ''تاریخ تصوف'' نامی معرکۃ الآراء تصنیف چھوڑی ہے جو واقف کاران کیلئے کسی تعارف کی محتاج نہیں.. اس کتاب کا ایک غیرمطبوعہ باب "تصوفِ اسلامی میں غیراسلامی نظریات کی آمیزش" کی شکل میں موجود ہے جس پر مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم (جو خود ایک عظیم مفکر و محقق تھے اور تصوف پر گہری تنقید رکھتے تھے) نے خوبصورت تقریظ فرمائی ہے.. اس تقریظ کا ایک چھوٹا سا حصہ آپکے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں..!
"اربابِ تصوف کی چیزیں پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ انکی کتاب و سنت سے ہٹی ہوئی باتوں سے وحشت ہوتی تھی.. میں ان چیزوں کو خود تصوف کی خرابی پر محمول کرتا تھا، لیکن پروفیسر صاحب کے اِس مقالہ سے مجھ پر پہلی مرتبہ یہ بات بدلائل واضح ہوئی کہ ہمارے تصوف میں بھی انہی چور دروازوں سے بہت سے فتنے داخل ہوئے ہیں جن سے تاریخ، حدیث، فقہ، تفسیر، ادب اور فلسفہ میں داخل ہوئے ہیں.. اس حقیقت کے واضح ہونے سے نفس تصوف سے میری بیزاری کم ہوئی ہے.. اب میں زیادہ قصور اُن لوگوں کا سمجھتا ہوں جو اپنی سادگی اور عامیانہ تقلید کے سبب سے روافض اور سبائیوں کی دسیسہ کاریوں سے آگاہ نہ ہو سکے اور تصوف کے چشمہ صافی کو انہوں نے ایک جوہڑ بنا کے رکھ دیا"
آگے اِسی کتاب سے ایک مختصر اقتباس حاضرِ خدمت ہے..!
"قرآن کی رو سے اللہ کے علاوہ کوئی شخص دستگیر یا مشکل کشا یا حاجت روا یا کارساز نہیں ہے.. چونکہ قرامطہ براہِ راست مسلمانوں کو شرک کی تعلیم نہیں دے سکتے تھے، اسلئے انہوں نے صوفیوں کا روپ دھارا اور اپنے ظاہری تقدس، وضع قطع، لباس، گفتگو اور طرزِ عمل سے مسلمانوں کو دھوکا دیا اور یہ مشرکانہ تعلیم بآسانی انکی محبوب شخصیت کے نام کے پردے میں انکے دماغوں میں جاگزیں کردی.. داد طلب امر یہ ہے کہ یہ کام ایسی عمدگی سے انجام دیا کہ عوام دھوکہ کھا گئے اور مرورِ ایام سے یہ روایات مسلمان صوفیوں کے صوفیانہ لٹریچر کا جزوِ لاینفک بن گئیں اور اب ان روایات کو صوفیانہ لٹریچر سے خارج کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا گوشت کو ناخن سے جدا کرنا"
"قرامطہ نے فصوص الحکم، فتوحاتِ مکیہ، مثنوی روم، احیاءالعلوم اور دوسری مشہور کتابوں میں اپنی طرف سے عبارتیں اور اشعار داخل کر دئیے، بلکہ بہت سی کتابیں خود لکھ کر بعض بزرگوں سے منسوب کردیں".. (اسکی مکمل تحقیق پروفیسر صاحب نے بحوالہ کی ہے، کتاب میں دیکھئے)..!
قارئین کرام ! میری دعوت ہے کہ آپ بذاتِ خود کتبِ تصوف کا دیانتدارانہ جائزہ لیں اور تحقیق کریں کہ آیا صوفیاء کی کتب میں جو نامناسب اور خلافِ شرع عبارات درج ہیں،، کیا واقعی وہ انہی صوفیاء کے اقوال ہی ہیں یا کسی دشمنِ دین سبائی نے انکی کتب میں دھاندلی اور چابکدستی سے گھسیڑ دئیے ہیں؟ اور اس بات کی تاریخی شہادت پر بھی تحقیق کریں کہ جو کتب صوفیاء سے منسوب ہیں، کیا وہ حقیقت میں انہی کی تصانیف ہیں یا کسی امامیہ کی؟ یہی وجہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا صوفی بھی انکی تاویل کرنے سے عاجز نظر آتا ہے۔۔ اگر صوفیاء کرام کتبِ تصوف میں موجود خلافِ شرع عبارات کی تصریح یا تاویل کرتے تو یہ سوچا جا سکتا تھا کہ ضرور صوفیاء کے عقائد میں پختگی نہیں ہے اور وہ باطل ہیں۔۔!
بہرکیف، مزید تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ایسے ایسے دلچسپ اقتباسات پیش کروں کہ آپ دنگ رہ جائیں کہ تزکیہ نفس کے اس اہم ترین شعبے سے نہ صرف عامتہ الناس بلکہ علماء کو کس طرح متنفر کیا گیا ہے.. مذکورہ کتاب میں ہر ایک بات مستند حوالہ کے ساتھ موجود ہے جسے آپ نیچے دئیے گئے لنک سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں.. میری خواہش ہے کہ جو احباب علم و تحقیق سے شغف رکھتے ہیں، تصوف کی حقیقت جاننے کے خواہاں ہیں اور تعصب سے آزاد ہیں،، وہ اس مختصر مگر جامع تصنیف سے ضرور مستفید ہوں..!!
(خیراندیش: محمد نعمان بخاری)
‫http://knooz-e-dil.blogspot.com/2015/02/islamitassawwufmaingairislaminazeriyatk.html