Thursday, October 29, 2015

حضرت امام حسینؓ کو نذرانۂ عقیدت

0 comments
کبھی خیال آتا ہے کہ کل محشر میں اگر نانا نے نواسے سے پوچھ لیا کہ حسینؓ! تم نے میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو کیوں شہید کرایا؟ وادئ کرب و بلا کو اہلِ بیتِ نبوت کے خون سے کیوں سیراب کیا؟ کیا نبی کے گھرانے کے پاک خون کا تمہیں ذرا پاس نہ ہوا؟ کیا تھا کہ تھوڑا سا سمجھوتہ کرلیتے تو خاندانِ رسالت کو یوں بےدردی سے تاراج نہ کیا جاتا؟ کیا ہوتا اگر دل سے نہ سہی،، معصوم بچوں کے خون کا لحاظ کرتے ہوئے باطل کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیتے؟
کیا جواب ہو گا امام حسینؓ کا؟ کیا سر جھکا کر معذرت خواہ ہوں گے؟
میں کہتا ہوں ہرگز ہرگز نہیں..!!!
سیدنا حسینؓ پکار اٹھیں گے کہ نانا جان ﷺ! میرے پاس دو اختیارات تھے.. یا تو آپؐ کی اُس بابرکت تعلیم و تربیت کی لاج رکھتا جو بچپن سے میری گھٹی میں پڑی تھی.. یا پھر ظالم کے سامنے جُھک کر اسکی اطاعت قبول کرکے آپکے پاکیزہ خون کی نگہبانی کرتا..!
میں نے آپکی تعلیمات کو مقدم سمجھا.. 
میری تربیت میں یہ بات شامل تھی کہ باطل کی اطاعت کے مقابل گھر چھوڑنا پڑے،، چھوڑ دو.. 
بدر و اُحد سجانا پڑے،، سجا لو.. 
خندق کھودنی پڑے،، کھود لو.. 
مگر اللہ کے دین میں پیروی ہو گی تو صرف آپؐ کی ہو گی.. کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ مسندِ اقتدار پر من چاہی روش اختیار کرے.. دین کے خالص پن میں کھوٹ کی ایک رَتی بھی برداشت نہیں کی جائے گی.. 
مکرم ترین خون کے دریا بہیں تو بہہ جائیں،، 
ننھے بچوں کے خشک حلق خون سے تر ہوں تو ہو جائیں،، 
امت کی باعزت ترین خواتین پریشان حال رہیں تو رہ جائیں.. 
مگر احکاماتِ الہیہ اور آپؐ کے فرامین سے بالاتر کسی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا.. راہِ کرب اور مقامِ بلا میں ہوتے ہوئے بھی مالک کو سجدہ چھوڑا نہیں جا سکتا..!
عالمِ تصور میں یہ وہ لمحہ ہو گا جب نانا اپنے نواسے کو فخر سے گلے لگائیں گے اور فرمائیں گے حسینؓ! تو نے خونِ نبوت اور پیغامِ رسالت کا حق ادا کردیا.. تو نے حق کو باطل سے جدا رکھ کر دنیا کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا جسے حسینیت کہا جانے لگا.. تو نے یزیدیت کے مظالم سہہ کر تاریخِ اسلام کا ایک قابلِ تقلید باب رقم کیا.. 
سلام ہو تجھ پر اے شہیدِ کربلا.. 
سلام ہو تجھ پر اے شبابِ جنت کے سیّد..!!
دوستو؛ 
اپنے سینے کو کربلا سمجھو.. اس میں حسینؓ بھی ہے اور یزید بھی.. 
اپنے گریبان میں جھانکو.. اس میں مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی.. 
اپنے من کا جائزہ لو.. اس میں حق بھی ہے اور باطل بھی.. 
تمہارے ضمیر میں صدق و کذب کی کرب و بلا ہر آن بپا ہے.. 
تختِ اختیار ہر لمحہ تمہارے قبضے میں ہے.. 
چاہو تو حسینؓ کی صف میں کھڑے ہو کر شیطانیت کے ہر وار کو بہادری سے سہہ لو.. 
چاہو تو لشکرِ یزید میں رہ کر سمجھوتوں اور من پسندی کی زندگی جیو.. 
حیاتِ جاوداں وہ پائے گا جو اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں طریقِ حسینیت پہ کاربند رہے گا.. اور جو رب کے قائم کردہ اصولوں کو یزیدیت سے پاک رکھے گا..
دورِ حاضر کے تمام فتنوں کو بتا دو کہ 'تیرا حسینؓ ابھی کربلا نہیں پہنچا'،، مگر،،،
میرا حسینؓ سدا کربلا میں رہتا ہے
میں حُر ہوں کسی یزید کا غلام نہیں..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

Wednesday, October 14, 2015

محبت اور ذاتِ گرامی ﷺ

0 comments
مضمون: سیرتُ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
منتخب پہلو: محبت
انتساب: ان تمام لوگوں کی عقیدت اور تڑپ کے نام جو سیرت پر لکھنا چاہتے ہیں پر نہیں لکھ پاتے۔۔!
تحریر: محمد نعمان بخاری
۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔ــــ۔۔
بندہ ایک ہو،،محبوب ایک ہو۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے پانے کے خواہش مند ایک سے زیادہ ہوں،، تو وہ آپس میں رقیب کہلاتے ہیں۔۔ ہوتے تو وہ ایک ہی شخص پر فِدا ہیں مگر ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہیں،، ایک دوسرےکے نقصان کے درپے ہوتے ہیں۔۔ محبوب سےتعلق رکھنے کی خاطر رقیب کیلئے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک فطری اَمر ہے۔۔ اس جذبے نے دنیا میں بہت فساد پھیلایا،، بہت خرابہ کیا۔۔ کوئی دن ایسا بتا دیجئے جب اخبار میں رقیبوں کے منفی کارناموں پر خبر نہ چلی ہو۔۔ یہ معمول ہے۔۔ انسان مجبور ہے اپنی اس خصلت پر لگام نہ ڈالنے پر۔۔!
تاریخ کی بے کنار زمین پہ کھڑا زیرِ فلک نظر بھگاؤں تو قربان کیوں نہ جاؤں اُس عفیف ہستی پر۔۔ بندہ ایک ہے،، محبوب ایک ہے۔۔ اسے چاہنے والے،، اسے اپنانے کے طالب لاکھوں نہیں کھربوں میں ہیں۔۔مگر وہ سب رقیب نہیں بلکہ آپس میں رفیق ہیں۔۔ ہو گی کسی معاملے پہ نفرت،، کسی بات پہ دشمنی ہو گی،، کسی مسئلے پہ چپقلش بھی ہوگی۔۔ لیکن جب نام آئے گا میرے محبوب ﷺ کا،، سیدُ المرسلینﷺ کا۔۔ تو سب عداوت کافور،، سب رقابت ختم۔۔ کمال ہے،، بے حد کمال ہے۔۔ یہ کیسا دلرُبا ہے جس نے کروڑوں دِلوں کو ایک مشترکہ مرکز فراہم کر دیا۔۔ یہ کیسا مکرّم ہے جس نے انسانیت کو ایک نقطۂ اتحاد سے نواز دیا۔۔ یہ کیسی ذاتِ گرامی ہے جس کا نامِ نامی آتے ہی سارے انتقامی جذبے ماند پڑ جاتے ہیں،، محبت جاگ اٹھتی ہے،، دل جُڑ جاتے ہیں۔۔ ارے مقامِ حیرت تو دیکھئے کہ خون کے پیاسے خونِ جگر دے رہے ہیں اور جان کے دشمن جان لٹانے پہ آمادہ۔۔ انسانیت کے تمام صالح اوصاف کو انکی اعلیٰ ترسطح پہ ایستادہ کیا جائے تو وہاں رسول الراحہ ﷺ مسکراتے ہوئے ملیں گے۔۔ پاکیزہ ترین تصور کی تان کو کھینچ کےبے لوث محبت کی منتہیٰ تک لے جایا جائے تو وہاں صاحبِ معراج ﷺ جلوہ افروز ہوں گے۔۔ میں خالقِ زمان و مکاں کی تخلیقی وسعتوں پر حیرت کناں تو تھا ہی،، اسکی رفعتوں کا پہلے سے بھی زیادہ معتقد ہو گیا جب اُس نے اشرف الانبیاءﷺ کو مبعوث فرما کر انسانیت پر اپنے احسانوں اور محبتوں کی حد کردی۔۔ اور پھر حاکمِ بحروبر کی اپنے حبیب ﷺ کیساتھ محبت دیکھئے کہ شرقین سے غربین تک اُس کے پاک نام کے ساتھ اگر کسی اور نام  کی گونج ہے تو وہ ہے محمد الرسول اللہ ﷺ۔۔ ارض و سماوات کے ہر نہاں خانے میں ربِ قدوس کی تقسیم کردہ محبت کا ہر ذرہ اپنی منزل پہ پہنچنے سے پہلے درِ اقدسِ قاسم ﷺ کا بوسہ لے کر آتا ہے۔۔ رب کے عالمین میں جہاں کہیں محبت کی کوئی کرن موجود ہے،، وہ ضیاء پاتی ہے آفتابِ نبوت ﷺ سے۔۔ حتیٰ کہ مجھے اگرآپ سے محبت ہے،، تو یہ عکس ہے اُس محبت کا جو ہمیں آقا ﷺ سے نصیب ہے۔۔ آپ کو اگر مجھ سے پیار ہے،، تو یہ سایہ ہے اُس محبت کا جو ہمیں سرکار ﷺ کی ذاتِ عالی سے ہے۔۔!
آخر ایسا کیوں ہوا کہ مومن کو اس قدر محبت ہو گئی نبئ محترم ﷺ سے کہ کفر پکار اُٹھا،، ''قلبِ مومن سے روحِ محمد نکال لو تو اسلام کا وجود ختم ہو جائیگا''؟ 
ایک ضابطہ ہے محبت کا کہ کسی کو جتنی محبت دو گے،، بدلے میں اس سے کم محبت نہیں ملے گی۔۔ انسان تو انسان،، آپ جانور کو پیار کی تھپکی دیں تو وہ آپ سے مانوس ہو جاتا ہے،، آپکا تابع ہو جاتا ہے۔۔ یہ محبت اونچائی سے گہرائی کی طرف سفر کرتی ہے،، اور ردّ عمل میں نیچے سے واپس بلندی کی طرف لوٹتی ہے۔۔ رب نے اپنے کلام میں طے کردیا ہے کہ ''یُحبھم ویحبونہ''۔۔ (اللہ اُن سے محبت کرتا ہے، اور وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں)۔۔ یعنی ابتداء اللہ کریم کی طرف سے ہوتی ہے محبت کی۔۔  میں انگشت بدنداں ہوں کہ کس قدر شدید پیار کیا ہے شفیع المذنبینﷺ نے انسانیت سے،، کہ جواباً ایک ادنیٰ سا مسلمان اپنے جسم کے چیتھڑے تو اُڑوا دیتا ہے مگر شانِ رسالت پر غبار کا ذرہ بھی برداشت نہیں کر سکتا۔۔ عالمِ تخیل میں کسی طرح محبت کو ایک جگہ اکٹھاکر دیا جائے،، گر اسے کسی تصویر میں ڈھالا جاسکے،، تو محبوبِ ربانیﷺ کی صورت و شباہت بنے گی۔۔ یعنی مصورِ کونین نے خیرالبشرﷺ کو مجسمِ محبت بنا دیا ہے،، محورِ رفاقت کر دیا ہے،، مرکزِ الفت ٹھہرا دیا ہے۔۔ حیاتِ طیبہ کے تمام واقعات پڑھ لیں،، سیرت مبارکہ کے تمام پہلو دیکھ لیں،، محبت ہی محبت ہیں۔۔ ولادت باسعادت سے لیکر وصال مبارک تک کی سوانح محض ہادئ عالم ﷺ کے شب و روز کی تصویر کشی نہیں،، بلکہ یہ خدا کے کلام کی وہ عملی تفسیر ہے جسے خالقِ کُن نے اپنے محبوب کی شکل میں کھینچا ہے۔۔ ہم سے مطالبہ صرف یہی ہے کہ ہم جوابِ محبت میں سرورِ دوعالم ﷺ کی سیرتِ عظمیٰ کے متبرک سانچے میں ڈھل جائیں۔۔ یہی راہِ نجات ہے،، یہی صراطِ الفت ہے،، یہی پیغامِ محبت ہے۔۔!!

Saturday, October 10, 2015

روضۂ اطہر ﷺ پر حاضری کے احساسات

0 comments
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ذی احساس مسلمان پہلی مرتبہ روضہء رسول ﷺ پہ حاضری دے اور ضبط کے بندھن نہ ٹوٹیں.. رفتہ رفتہ یہ بندھن مضبوط ہوتے ہیں اور چار پانچ حاضریوں پہ اشکوں کو ٹٹولنا پڑتا ہے کہ نجانے کہاں گم ہو گئے.. حالیہ رمضان مبارک میں ایک بھائی سے مسجدِ نبویؐ کی چھت پہ ایک عمدہ ملاقات رہی.. ان کو کو بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ پاکستان سے مدینہ منورہ کے سفر سے پہلے حالت یہ ہوتی ہے کہ گویا زیارت کرتے ہی رو رو کر ہماری جان نکل جائیگی.. مگر کچھ دو دن بعد یوں ہوتا ہے کہ جالئ اقدس پہ پہنچ کے بےسدھ  بےاشک کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں.. میں نے عرض کی کہ یہ وصال کی گھڑیوں کی وہ روحانی چاشنی ہے جسے پاکر بندہ ہجر کے دکھ بھول جاتا ہے.. جیسے ممتا کی گود میں آتے ہی بچے کو قرار آ جائے.. جیسے باپ کا سایہء شفقت ملتے ہی بیٹے کو طمانیت کا ادراک ہو.. جیسے کسی بہت زیادہ چاہنے والے کی محفل میں پہنچ کر انسان کو سکونِ دل میسر آئے.. پھر واپس اپنے گھر پہنچ کر ہجر کے آلاؤ تیز ہو پڑتے ہیں اور پھر وہی دوری ڈسنے لگتی ہے جسکا احساس تب ہوتا ہے جب روضہ اطہر کی کوئی شبیہ سامنے آ جائے یا نعت کے چند بول کانوں کو سنائی دیں.. غرض ان بےربط فقروں کے ذریعے میں آپکو بتا نہیں پا رہا کہ جذبات کو الفاظ سے کیسے ڈھانپا جائے.. کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کیفیت بنے نہ بنے،، درِ حبیب ﷺ کی حاضری کی سعادت کو معمولی نہ سمجھا جائے.. ان لمحات کی حقیقی پہچان اور قدر برزخ میں معلوم ہو گی.. دنیا میں ہرشخص کی کیفیت اسکے مزاج و فطرت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے.. کچھ ایسے بھی ہیں جو وصال کی خوشی بھی برداشت نہیں کرپاتے اور سینہ چاک کر بیٹھتے ہیں..!
آمدم برسرِ قصہ،،
آج بعد مغرب، سلام پیش کرتے ہوئے معاً یہی خیال کوندا کہ یقیناَ دل بنجر ہو چکا ہے.. ہلکی سی نمی بھی ہوتی تو ضرور کچھ آثار اُمڈ آتے.. بوجھل قدموں سے باہر نکل آیا.. جوتی اٹھانے کیلئے شوز ریک کی سمت بڑھا تو ایک خوش پوش پاکستانی نوجوان پہ نگاہ پڑی.. کالی گھنی داڑھی اور سفید اُجلے لباس میں ملبوس بہت پیارا لگ رہا تھا.. مگر یا اللہ یہ کیا؟؟ میں ٹھٹھک گیا.. وہ سفید لاٹھی کے سہارے کچھ ٹٹول رہا تھا گویا رستہ ڈھونڈتا ہو.. اسکی آنکھوں کے نگینوں کو میں نے دیکھا تو ان میں روشنی نہ تھی.. 
"یا میرے مالک" ،، میری دھاڑ نکل گئی.. بینائی والوں کا حال تو یہ ہے،، اور نظر سے معذور یہ شخص کس چاہت سے اپنے ملک سے یہاں اپنے نبی کا روضہ دیکھنے آیا ہے.. کس الفت اور مان سے یہاں فِراق کا اَلم مٹانے پہنچا ہے.. ضرور یہ آنکھ والوں کی قسمت پہ رشک کرتا ہوگا اور تنہائی میں اپنے رب کے حضور آہیں بہاتا ہو گا کہ میرے مولا! کاش مجھے بینا کیا ہوتا.. اور کچھ نہیں بس زندگی میں صرف ایک بار آنکھ بھر کے کالی کملی والے کا سبز گنبد دیکھ پاتا..! 
ہائے یہ احساس کی سنگین سولی،، ظالم چین سے جھولنے ہی نہیں دے رہی تھی.. جان تھی کہ مرغِ بسمل ہوئی،، آنسو تھے کہ گھنٹہ بھر جاری رہے..!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

کیا صحابہ کرامؓ معیارِ حق اور جزوِ ایمان ہیں؟

0 comments
ایک لمحے کو آپ صحابہ کرام کو 'جزوِ ایمان' سے نکال باہر کریں،، نبوت کے ان محافظوں کے اقوال و کردار اور قربانی و ایثار کو بھول جائیں،، انکے تاریخ ساز فیصلوں کا یک جنبش انکار کر دیں،، انکے مصدقہ صدق و وفا سے آنکھیں پھیر لیں،، تو پتہ ہے ہماری مذہبی دنیا میں کیا شے بچے گی؟ صرف رافضیت..!
کیسے؟
وہ ایسے کہ جو بےلچک امور صحابہ عظام نے عمارتِ اسلام کی مضبوطی و رفعت کیلئے سرانجام دئیے،، ان سب پر تقیہ کا بدبودار ٹاٹ ڈال کر اور اسکے نیچے چھپ کر ہی تو رافضیت سانس لے رہی ہے،، ورنہ اسکے پلے ہے کیا؟ میرے جو فیس بُکی دوست غلطی سے یہ مان بیٹھے ہیں کہ صحابہ ہمارے لیے معیارِ ایمان و حق نہیں ہیں، ایک معنی میں وہ قرآنِ کریم کی ان بیسیوں آیات کا ابطال کر بیٹھتے ہیں جن میں اللہ کریم نے انکے اوصاف بیان فرمائے ہیں،، جن میں خالق کائنات نے انکی آراء کی موافقت فرمائی ہے.. جن میں رب نے واضح طور پر انکے ایمان و کردار کو ہمارے لیے مثال کیا ہے کہ ویسا ایمان لاؤ جیسا وہ لائے تھے، وہ صراط اپناؤ جس پہ انکے قدوم کے نشان ہیں،، تب ہی ممکن ہے کہ تمہیں بھی 'انعمت علیھم' میں جگہ مل سکے گی.. کیا پھر بھی انکے خلوص میں اور معیارِ حق ہونے میں شائبہ کی گنجائش بنتی ہے؟ اگر بنتی ہے تو میں نرم ترین الفاظ میں آپکو 'تقیہ پرور' کہہ سکتا ہوں.. مگر شاید مجھے ایسا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ میرے نزدیک آپ بلاشک ایک اچھے مسلمان ہیں اور مجھے امید ہے آپ محض ایک پُرخلوص غلط فہمی کا شکار ہیں..!
میرے بھائی، آپ کے پاس دوسرا راستہ اور واسطہ کیا ہے جس کے ذریعے آپ زبانِ نبوت سے ادا ہونے والے الفاظ کو سُن اور سمجھ سکیں؟ آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ قرآن میں بتائے گئے عین یہی الفاظ اللہ کا کلام ہیں؟ کون گواہ ہے جو یہ شہادت دے سکے کہ میں نے بذاتِ خود اللہ کے نبی سے اللہ کا کلام سُنا تھا؟ ان سوالوں کا درست جواب پانے کیلئے آپکو بلا چوں چراں ماننا ہو گا کہ اولٰئک ھم الصادقون.. دوسری صورت میں آپکو تحریفِ قرآن کا قائل ہونا پڑے گا.. آپکو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خلافت چھین لینی پڑے گی.. آپکو اپنا لقب مومن رکھ کر امہات المومنین پر زبان درازیاں کرنی ہوں گی.. آپکو یہ اقرار کرنا ہو گا اللہ کا نبی تیئیس برس میں صرف پانچ تن ہی پاک کر سکا.. آپکو اُس کلمے میں اضافہ کرنا ہو گا جسے پڑھتے پڑھتے شہداء نے اپنی زندگیوں کی آخری پُرکیف ہچکیاں لیں.. آپکو حسینیت کے نام پر یزیدیت کا پرچار کرنا ہو گا.. آپکو وضو اور نماز کا طریقہ خود تراشنا ہو گا.. آپکو روزے کا ٹائم ٹیبل بدلنا ہو گا.. آپکو زکوٰۃ کا منکر ہونا پڑے گا.. آپکو حج پر زواری کو ترجیح دینی ہو گی.. آپکو نبوت کی دیوار میں امامت کا کیل گاڑنا ہو گا.. آپکو شفاعت کا معیارِ ربانی تبدیل کرنا پڑے گا.. آپکو کالے جھنڈے تلے سرخ چراغ جلانا ہو گا.. آپکو خچر اور گھوڑے چومنا ہوں گے.. آپکو اپنے ہاتھوں اپنی ہی سینہ کوبی کا عذاب عبادت سمجھ کر سہنا ہو گا..!
اگر آپ ان سب خرافات سے اجتناب چاہتے ہیں، اور یقیناً چاہتے ہیں کیونکہ آپ ایک باشعور مسلمان ہیں تو ہردم دھیان رہے کہ صرف صحابیت ہی وہ ڈھال ہے جو ناموسِ رسالت کے تحفظ میں ڈٹ کے اور سینہ سپر کئے کھڑی ہے.. اس مقدس ڈھال کو پھاڑ دو،، اسکے معیارِحق ہونے سے انکاری ہو جاؤ،، تو بس آدھ انچ کا فاصلہ ہے خانوادہء نبوت پہ حملہء رافضیت کیلئے.. اعاذنا اللہ منہ.. مانا کے صحابہ معصوم عن الخطاء نہیں،، مگر جو رب سے ہر حال میں راضی ہوں،، جن کو اپنی دائمی رضا کا پروانہ خدا نے خود نوازا ہو،، انکو عدل کا پیمانہ کہنے سے ہچکچانا خود کو ایک رنگین دھوکا دینے کے سوا کچھ نہیں..!!
رضوان اللہ علیھم اجمعین
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

دعا کا ادب

0 comments
آپ بیمار ہوں تو کیا آپ نے کسی سے یہ کہا کہ "دعا کرنا ، اللہ مجھے دوا لینے کی توفیق دے"؟ 
تو روح کے بیمار ہونے پر آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ، "دعا کرنا، میں نماز پڑھ سکوں۔ یا مجھے نماز کی توفیق ملے"؟
میرے بھائی، دعا کے آداب ہوتے ہیں۔۔ آپ اگر شادی ہی نہ کرنا چاہیں، اور اللہ سے اولاد کی دعا مانگنے لگیں تو کیا یہ گستاخی نہیں۔۔ جب آپکو اپنے بدن کی بیماری کے علاج کی فکر لاحق ہوتی ہے تو آپ فوراً طبیب سے رجوع کر کے علاج شروع کر دیتے ہیں۔۔ اور روح کی بیماری کے علاج کیلئے غیر سنجیدہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔۔ سب سے پہلے آپ کو اپنی روح کی صحت کا احساس کرنا ہو گا۔۔ جب احساس بیدار ہو گا، تو نماز اور اعمالِ صالحہ کی توفیق بھی اللہ دے دیں گے۔۔ اصل میں ہم عبادات کرنا ہی نہیں چاہ رہے ہوتے اور دوسرے کو ٹرخانے کیلئے کہہ دیتے ہیں کہ، بس یار دعا کرنا۔۔!!
(بخاریات)