کبھی خیال آتا ہے کہ کل محشر میں اگر نانا نے نواسے سے پوچھ لیا کہ حسینؓ! تم نے میرے بیٹوں اور بیٹیوں کو کیوں شہید کرایا؟ وادئ کرب و بلا کو اہلِ بیتِ نبوت کے خون سے کیوں سیراب کیا؟ کیا نبی کے گھرانے کے پاک خون کا تمہیں ذرا پاس نہ ہوا؟ کیا تھا کہ تھوڑا سا سمجھوتہ کرلیتے تو خاندانِ رسالت کو یوں بےدردی سے تاراج نہ کیا جاتا؟ کیا ہوتا اگر دل سے نہ سہی،، معصوم بچوں کے خون کا لحاظ کرتے ہوئے باطل کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیتے؟
کیا جواب ہو گا امام حسینؓ کا؟ کیا سر جھکا کر معذرت خواہ ہوں گے؟
میں کہتا ہوں ہرگز ہرگز نہیں..!!!
سیدنا حسینؓ پکار اٹھیں گے کہ نانا جان ﷺ! میرے پاس دو اختیارات تھے.. یا تو آپؐ کی اُس بابرکت تعلیم و تربیت کی لاج رکھتا جو بچپن سے میری گھٹی میں پڑی تھی.. یا پھر ظالم کے سامنے جُھک کر اسکی اطاعت قبول کرکے آپکے پاکیزہ خون کی نگہبانی کرتا..!
میں نے آپکی تعلیمات کو مقدم سمجھا..
میری تربیت میں یہ بات شامل تھی کہ باطل کی اطاعت کے مقابل گھر چھوڑنا پڑے،، چھوڑ دو..
بدر و اُحد سجانا پڑے،، سجا لو..
خندق کھودنی پڑے،، کھود لو..
مگر اللہ کے دین میں پیروی ہو گی تو صرف آپؐ کی ہو گی.. کسی فرد یا گروہ کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ مسندِ اقتدار پر من چاہی روش اختیار کرے.. دین کے خالص پن میں کھوٹ کی ایک رَتی بھی برداشت نہیں کی جائے گی..
مکرم ترین خون کے دریا بہیں تو بہہ جائیں،،
ننھے بچوں کے خشک حلق خون سے تر ہوں تو ہو جائیں،،
امت کی باعزت ترین خواتین پریشان حال رہیں تو رہ جائیں..
مگر احکاماتِ الہیہ اور آپؐ کے فرامین سے بالاتر کسی کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا.. راہِ کرب اور مقامِ بلا میں ہوتے ہوئے بھی مالک کو سجدہ چھوڑا نہیں جا سکتا..!
عالمِ تصور میں یہ وہ لمحہ ہو گا جب نانا اپنے نواسے کو فخر سے گلے لگائیں گے اور فرمائیں گے حسینؓ! تو نے خونِ نبوت اور پیغامِ رسالت کا حق ادا کردیا.. تو نے حق کو باطل سے جدا رکھ کر دنیا کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا جسے حسینیت کہا جانے لگا.. تو نے یزیدیت کے مظالم سہہ کر تاریخِ اسلام کا ایک قابلِ تقلید باب رقم کیا..
سلام ہو تجھ پر اے شہیدِ کربلا..
سلام ہو تجھ پر اے شبابِ جنت کے سیّد..!!
دوستو؛
اپنے سینے کو کربلا سمجھو.. اس میں حسینؓ بھی ہے اور یزید بھی..
اپنے گریبان میں جھانکو.. اس میں مظلوم بھی ہے اور ظالم بھی..
اپنے من کا جائزہ لو.. اس میں حق بھی ہے اور باطل بھی..
تمہارے ضمیر میں صدق و کذب کی کرب و بلا ہر آن بپا ہے..
تختِ اختیار ہر لمحہ تمہارے قبضے میں ہے..
چاہو تو حسینؓ کی صف میں کھڑے ہو کر شیطانیت کے ہر وار کو بہادری سے سہہ لو..
چاہو تو لشکرِ یزید میں رہ کر سمجھوتوں اور من پسندی کی زندگی جیو..
حیاتِ جاوداں وہ پائے گا جو اپنی خلوتوں اور جلوتوں میں طریقِ حسینیت پہ کاربند رہے گا.. اور جو رب کے قائم کردہ اصولوں کو یزیدیت سے پاک رکھے گا..
دورِ حاضر کے تمام فتنوں کو بتا دو کہ 'تیرا حسینؓ ابھی کربلا نہیں پہنچا'،، مگر،،،
میرا حسینؓ سدا کربلا میں رہتا ہے
میں حُر ہوں کسی یزید کا غلام نہیں..!!
.
(تحریر: محمد نعمان بخاری)