Wednesday, December 13, 2017

صوفیاء کو کشف کیوں اور کیسے ہوتا ہے؟

0 comments
ویسے تو تصوفِ اسلامی پہ بیشمار سوالات کئے جاتے ہیں لیکن ایک اعتراض نما سوال جو اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ "صوفیاء کو کشف و مشاہدہ اور وجدان کیوں ہوتا ہے؟" 
اب اسکا بندہ کیا جواب دے۔۔ بھئی ہوتا ہے تو ہوتا ہے۔۔ آپ روک سکتے ہیں تو کوشش کرلیں۔۔ یا اللہ سے دعا کریں کہ وہ صوفیاء کے مکاشفات پہ کرفیو نافذ کر دے۔۔ کمال کرتے ہیں آپ۔۔ یہ اللہ کی عطا ہے، جسے چاہے نصیب کرے۔۔ ہم کون ہوتے ہیں اسے مشورے دینے والے۔۔ البتہ یہ سوال قابلِ اعتناء اور معقول لگتا ہے کہ "صوفیاء کو مکاشفات کیسے ہوتے ہیں؟"
ذکراللہ کی کثرت سے جب قلب پر سے زنگ اُتر جاتا ہے تو یہ اسمِ ربانی کے انوارات سے روشن ہو جاتا ہے۔۔ جب قلب و روح اتنے منور اور پاکیزہ ہوجاتے ہیں تو بندے کو اس نور میں کئی ایسی چیزیں نظر آ سکتی ہیں جو جسم کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔۔ اس قلبی نگاہ کے کھلنے کو کشف کہتے ہیں۔۔ یعنی منکشف ہونا، Disclose ہونا۔۔ اس حِس کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مشاہداتی علم کہلاتا ہے۔۔ اس میں دنیا کی اشیاء کی حقیقت بھی دکھائی دے سکتی ہے اور عالمِ غیبیہ کی اشیاء کی بھی۔۔ اسمیں شیطان گڑبڑ کر سکتا ہے اور اپنی طرف سے کچھ روشنیاں وغیرہ دکھا کر بات کو غلط interpret کرا سکتا ہے۔۔ اسلئے کشف غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔۔ اسے پرکھنے کی کسوٹی یہ ہے کہ کشف میں کہی یا بتائی یا دکھائی جانے والی شے یا بات اگر شریعتِ نبویﷺ کے متصادم یا خلاف ہے، یا شرعی احکام کے علاوہ کوئی حکم ہے، تو کشف باطل ہے۔۔!
۔
اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو آگے پوچھا جاتا ہے کہ" کشف ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟"
ساتھ ہی معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی کا مفہوم ہے: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔" (مسند احمد)
پھر معترضین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ: وحی، الہام، القا، کشف سب ختم ہو گیا، کیونکہ یہی تو نبوت کے کمالات ہیں۔۔!
یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے کیوں کہ وحی کے ساتھ بار بار الہام اور کشف و القاء کو جوڑنا اور ان سب کو نبوت کا جزو قرار دینا ان کے اصطلاحی معنوں سے ناواقف ہونے کی علامت ہے۔۔ انکی تفصیل جاننے کا کسی کو شوق ہو تو وہ میرے بلاگ کا مطالعہ کرلے۔!
بہرحال! بخاری، مسلم اور ترمذی کی حدیث میں حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا : "میں جبل احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پاتا ہوں۔"
اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کے داہنے بائیں دو شخص دیکھے جن پر سفید کپڑے تھے اور بہت سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں دیکھا۔ یعنی وہ دونوں شخص جبرئیلؑ و میکائیلؑ تھے۔ (بخاری و مسلم)
یہاں سے غیرنبی پر علومِ غیبیہ کا منکشف ہونا ثابت ہوتا ہے۔
صحابہ اور اولیاء دراصل انبیاء کے روحانی وارث ہوتے ہیں۔۔ جب نبی کو غیبی چیزیں (جیسے حضرت ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمینوں کی مخفی چیزیں، اور جیسے حضرت یعقوبؑ کو بیٹے کی قمیص کی خوشبو آنا وغیرہ) دکھا دینے پر اللہ قادر تھا تو اُمتی کو بطفیل اتباعِ نبی کچھ دکھانے دینے پر اللہ اب قادر نہیں رہا؟ کیا اللہ نے کوئی ایسی آیت نازل کی ہے جس میں بتایا ہو کہ امتی کے قلبی مشاہدات پہ پابندی لگ چکی ہے؟ قرآن میں بوقتِ نزع انسان کا فرشتوں سے مکالمہ کرنا ذکر ہوا ہے۔۔ اگر تب فرشتے نظر آ سکتے ہیں تو اللہ کسی کی تالیفِ قلب کیلئے اسے آج فرشتے نہیں دِکھا سکتا؟
۔
اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو اگلا اعتراض ہوتا ہے کہ جو کچھ صوفیاء کو دکھائی دیتا ہے وہ محض انکی ذہنی اختراع اور دھوکا ہوتا ہے۔۔ یہ بس Meditation اور ذہنی ارتکاز کی کسی مشق کی طرح کا کام ہے۔۔!
بھئی آپکو کیسے پتہ کہ صوفیاء کو کیا دکھائی دیتا ہے اور کیسے دکھائی دیتا ہے؟ کیا آپ نے تصوف کو آزمایا ہے؟ اگر نہیں آزمایا تو اِدھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں پہ ایمان بالغیب کیوں لے آئے ہو؟ 
۔
پھر کہتے ہیں کہ جی یہ بس تخیل کے کمالات ہیں، ہوتا کچھ بھی نہیں۔۔!
اچھا تو کیا محض تخیل سے انسان کے عقائد درست ہو سکتے ہیں؟ کیا محض تصور کر لینے سے سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق کردار کی اصلاح ہو جاتی ہے؟ اگر نہیں، تو یاد رکھیں، ایک حقیقی صوفی کے عقائد سے لیکر اعمال اور افکار سے لیکر کردار تک شریعت کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔۔ کیا اپنے ذہن کی خودساختہ سیر کر لینے سے یہ مقام نصیب ہو سکتا ہے؟ 
بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے زُعمِ علم کے زور پر دوسروں پر صرف الزامات لگانے آتے ہیں اور صرف خود کو سچا باور کرانا آتا ہے۔۔ محقق صاحب! آپ اُس نابینا شخص کو اپنے دلائل سے کیسے قائل کریں گے جو کہے کہ مجھے چاند اور ستاروں کے ہونے کی علمی اور عقلی دلیل دو؟ بعینہ ہم بھی آپکو علمی اور عقلی دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔۔ ہاں البتہ ذوقی دلیل چاہئے تو ست بسم اللہ۔۔ آئیے، بیٹھئے، وقت لگائیے، محنت کیجئے تو خودی سمجھ آ جائیگی۔۔ لیکن شاید یہ آپکے بس کی بات نہیں۔۔ آپ اپنی کتابی تحقیقات جاری رکھئے۔۔!
جاتے ہوئے ایک توضیح کرتا جاؤں۔۔!
نبی کا کشف اور خواب دونوں حق ہوتے ہیں، اور امتیوں کیلئے ان پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔۔ ولی کا کشف اسکی اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے، دوسروں پر دھونس جمانے کیلئے نہیں ہوتا۔۔ کشف سے بھی مضبوط تر ایک چیز ہوتی ہے جسے "وجدان" کہتے ہیں۔۔ اسکی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظر تو کچھ نہیں آتا لیکن انتہائی قسم کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، بات دل میں جما اور بٹھا دی جاتی ہے اللہ کریم کی طرف سے۔۔ اس میں شیطان مداخلت نہیں کر سکتا۔۔!
کشف کا ہونا یا نہ ہونا بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا۔۔ یہ خالص خدائی تحفہ ہے۔۔ محض اسکے حصول کیلئے اگر کوئی جدوجہد کرتا ہے تو ہم اسے شرک فی التصوف سمجھتے ہیں کہ اللہ کی ذات کی بجائے غیراللہ کی طلب میں مجاہدہ کیا جائے۔۔!!
۔
تحریر: محمد نعمان بخاری

شیخ المکرم مولانا محمد اکرم اعوان رحمۃ اللہ علیہ کا یومِ وصال - ایک روداد

0 comments
یہ 2017ء کے آخری ماہ کی سات تاریخ تھی اور پہلی جمعرات۔۔ دل صبح سے ہی مضطرب تھا۔۔ ایک عجیب سا دھڑکا لگا تھا۔۔ میں موبائل دیکھتے دیکھتے سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے آفیشل پیج پہ جا پہنچا۔۔ حضرت جی مولانا محمد اکرم اعوانؒ کا تین تاریخ کا بیان اپلوڈ کیا گیا تھا۔۔ میں سننے بیٹھ گیا۔۔ بیان کیا تھا، بس پیغام تھا۔۔ کچھ بھی ہو جائے، کیسا بھی حال آئے، ہر لمحے دامانِ رسالت سے وابستہ رہنے کی نصیحت تھی۔۔ گویا اپنی زبان کو درود پاک کے تسلسل سے معطر رکھنے اور بدن کو مجسمِ درود بنانے کی وصیت تھی۔۔ میری چھٹی حس نے وسوسہ پیدا کیا کہ شاید یہ حضرت جیؒ کا آخری بیان ہو۔۔ حضرت جیؒ نے ایک نعرے کی صورت پیغام دیا؛
فجاء محمد سراجاََ منیرا
فصلوا علیہ کثیراََ کثیرا ---- ﷺ
شام تک حضرت جیؒ کا خیال ذہن میں مسلسل مزین رہا۔۔ عشاء کی نماز پڑھی، چائے بنائی اور بستر پہ بیٹھا پی رہا تھا کہ کال پہ خبر ملی؛ "حضرت جی وصال فرما گئے ہیں"۔۔ بیساختہ میرے منہ سے "انا للہ وانا الیہ راجعون" جاری ہو گیا۔۔ یہ خبر نہیں کوئی برچھی تھی جس نے سیدھا دل پہ چوٹ کی اور زخمی زخمی کر گئی۔۔ چائے ادھوری پڑی رہ گئی۔۔ بلا تاخیر دوست کو کال کی، اڈے پہ پہنچا اور سیدھا دارُالعرفان کیلئے روانہ ہو گیا۔۔ ایک بے یقینی کی کیفیت تھی اور دل مانے نہیں دے رہا تھا کہ حضرت جیؒ ہم سے جدا ہو چلے ہیں۔۔ راستے میں ایک بھکاری کو دیکھا جو کسی کار والے سے بھیک ملنے کی آس میں زمین پر ماتھا ٹکائے اسے باقاعدہ سجدہ کر رہا تھا۔۔ اب دل نے مان لیا کہ ہم ایک شیخِ کاملؒ کی بابرکت ذات سے محروم ہو چکے ہیں۔۔!!
چودہ گھنٹے کا سفر نجانے کیسے کٹا اور ہم سارا راستہ حضرت جیؒ کے بیانات سنتے سنتے دارالعرفان منارہ جا اترے۔۔ فضا میں رنجیدگی پھیلی ہوئی تھی۔۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو رو نہ رہا ہو۔۔ لوگ لوگوں سے لپٹ لپٹ کر خود کو تسلیاں دیتے اور دل پر سے دُکھ کا بوجھ اتارنے کی ناکام کوششیں کرتے نظر آئے۔۔ ہر قدم بوجھل تھا اور ہر سینہ درد سے بھرا ہوا۔۔ ہر چہرہ آنسوؤں سے تر تھا مگر ان آنسوؤں میں کہیں شکوہ نہ تھا۔۔ ہر قلب مضطر تھا مگر خدا کی رضا پہ مکمل راضی۔۔ میں پنڈال میں داخل ہوا۔۔ سامنے بھائی جان عبدالقدیر اعوان بیٹھے تھے جو احباب کی تسلیاں لینے کی بجائے ان میں تسلیاں بانٹ رہے تھے۔۔ عجیب بندہِ خدا ہیں۔۔ وقار کا قلزم اور استقلال کا ہمالیہ ہیں۔۔ میں حیران تھا کہ انہوں نے اپنے سینے میں دبے کرب کو چہرے پر ظاہر ہونے سے کس قدر جوانمردی سے روک رکھا ہے۔۔ میں نمناک آنکھوں سے انہیں ملنے پہنچا۔۔ انہوں نے دلاسہ دینے کے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا "شاہ جی کیا حال ہے؟"۔۔ میں لڑکھڑاتی آواز سے صرف "انا للہ" ہی کہہ سکا اور بھاری قدموں آگے بڑھ گیا۔۔ ہزاروں لوگ وفات کی اطلاع پا کر دارالعرفان کی سمت جوق در جوق کھنچے چلے آ رہے تھے۔۔!
نماز جمعہ سے پہلے بھائی جان نے مسجد میں خطاب فرمانا تھا، حالانکہ ایسے موقعے پر بولنا تک دشوار ہوتا ہے۔۔ بھائی جان منبر پر بیٹھے تو ماحول میں گھٹی گھٹی سسکیوں کی آوازیں پھیل گئیں۔۔ یہ وہ لمحات تھے جب ہم حضرت جیؒ کو آتے اور منبر پر بیٹھے دیکھا کرتے تھے۔۔ برداشت اپنی حدیں پھلانگنے کو بیقرار تھی۔۔ دل سینے سے اُچھل کر نکلنے کی آزادی مانگ رہا تھا۔۔ مگر دائرہِ شریعت کے سامنے سبھی بے بس تھے۔۔ قلوب مطمئن مگر غمزدہ تھے، لیکن ہاتھوں کو چاکِ گریباں کی اجازت نہ تھی۔۔ چاہئے تھا کہ گریہ و فغاں سے آسمان سر پہ اٹھا لیا جاتا،، مگر ادب نے یہ جرات نہ کرنے دی۔۔ بیان شروع ہوا تو ہولے ہولے قرار آتا گیا۔۔ بیچ بیچ میں کبھی صبر دامن چھڑانے لگتا تھا۔۔ ہجر کی کیفیات میں وصالِ محبوب کی باتیں ہوتی رہیں،، گزرے لمحوں کی یاد سے دلوں کو سہلایا جاتا رہا۔۔ بھائی جان نے ایک ساتھی سے کہا کہ حضرت جیؒ کی وہ نعت سنائیں جو انہوں نے دربارِ نبویﷺ میں حاضری کی سعادت کے موقع پر کہی تھی۔۔ جب وہ اس پہ شعر پہ پہنچے؛ 
؎ چند کرنوں کو تو دل میں اتر جانا ہے
میں چلا جاؤں گا سیمابؔ مجھے جانا ہے
تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔۔ بھائی جان سمیت ہر ساتھی کی پلکیں آنسوؤں میں بھیگ گئیں۔۔!
جمعہ کے بعد سب احباب نمازِ جنازہ ادا کرنے کو باہر کھلے میدان میں پہنچنے لگے اور انتہائی مترتب انداز سے صفوں میں کھڑے ہوتے گئے۔۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا، مگر تہذیب آشنا تھا۔۔ دور دور تک جمِ غفیر تھا مگر بدنظمی کہیں نظر نہ آئی۔۔ یہ اُس تربیت کی مختصر سی جھلک تھی جو رہبرِ طریقتؒ نے تمام عمر تعلیم فرمائی تھی۔۔ ایک منظم جماعت اپنے جرّی کمانڈر کو انتہائی خوبصورتی اور شائستگی سے الوداع کر رہی تھی۔۔ آپؒ دلوں کے حکمران تھے۔۔ آپؒ تمام زندگی بندگانِ خدا کے قلوب کو محبتِ الہٰی اور محبتِ پیغمبرﷺ کی لذت سے آشنائی دیتے رہے اور آج ہمیں غمِ جدائی دے چلے تھے۔۔ ذکراللہ کے انوارات و تجلیات ہوں،، نبی کریم ﷺ کے فیوضات و برکات ہوں،، قلب و روح کی کیفیات ہوں،، یا راہِ سلوک و تصوف کے مقامات ہوں،، ان سب سے آپؒ کی مشفقانہ توجہات کی بدولت جتنے لوگ اِس دور میں بہرہ وَر ہوئے، خیرُالقرون کے بعد اسکی مثال نہیں مل سکتی۔۔ حضرت جیؒ تو اپنی منزلِ اعلیٰ پہ پہنچ چکے، لیکن برکاتِ نبوت کے امین اہلُ اللہ کے یہ قافلے کبھی رُکا نہیں کرتے۔۔ برزخ کیا، یہ جنت میں بھی بلند سے بلندتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔ اللہ اب بھی وہی ہے، محمدﷺ آج بھی رسولِ برحق ہیں تو استفادہ کیلئے دروازے اِسوقت بھی بند نہیں ہوئے۔۔ تقسیم اب بھی جاری ہے مگر کوئی سائل بھی تو ہو۔۔!
اب آخری دیدار کا موقع آ چکا تھا۔۔ لوگ ایک قطار میں قرینے سے چلتے چلتے مرشدِ کامل کی زیارت کررہے تھے۔۔ میری باری آگئی۔۔ میں نے دیکھا تو آسمانِ حیرت پہ جا پہنچا۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں میت کا چہرہ کِھلا ہوا تھا،، فلاں کا چہرہ تازہ تھا،، فلاں کا چہرہ مسکراتا ہوا تھا۔۔ میں نے دیکھا کہ میرے شیخ عین اُسی انداز میں کھلکھلا کے ہنس رہے تھے جیسے وہ اپنی خوشگوار زندگی میں مترنم مسکان سے ہنسا کرتے تھے۔۔ جی ہاں! یہ بے انتہا کٹھن راستے سے گزر کر منزلِ مقصود پہ بخیریت پہنچ جانے کا اعلان تھا۔۔ یہ جیت کی خوشی کا اظہار تھا۔۔ یہ سلامتئ ایمان اور مضبوطئ کردار کیساتھ حضورِ حق میں سرخروئی کا مژدہ تھا۔۔ یہ خدا کی خوشنودی پا لینے کی بشارت تھی۔۔ یہ "وانتم الاعلون اِن كنتم مؤمنين" کا نغمہِ جانفزا تھا۔۔ یہ "بل أحياء عند ربهم يُرزقون" اور "فرحين بما اٰتاهم الله من فضلہ ويستبشرون بالذين لم يلحقوا بهم" کی تفسیرِ مبین تھی۔۔!
حضرت جیؒ کے جسدِ عالی کو سپردِ خاک کرنے کے بعد سلسلہ عالیہ کے احباب مسجد میں جمع ہوگئے جہاں شیخ المکرم مولانا امیر عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی کے دستِ اقدس پر تجدیدِ بیعت ہوئی۔۔ سب نے حضرت جیؒ کے اُس مشن کو آگے بڑھانے کا مصمم عزم کیا جس پر حضرت جیؒ تاحیات سختی اور جانفشانی سے کاربند رہتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہو گئے۔۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔۔!!
سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ میں گدی نشینی کا کوئی تصور ہے اور نہ گنجائش۔۔ یہاں کے فیصلے قابلیت، محنت، صلاحیت اور استعداد کو پرکھنے پر طے ہوتے ہیں،، پھر چاہے ان صلاحیتوں پر کوئی نسبی اولاد پوری اترے یا روحانی اولاد۔۔ یہ خدائی تقسیم ہے۔۔ یہی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے حضرت جیؒ نے اپنی زندگی میں ہی صاحبزادہ عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی کو سلسلہ عالیہ کی تمام ذمہ داریاں سونپ دی تھیں جنہیں وہ اوّل روز سے بےحد احسن اطوار سے نبھا رہے ہیں۔۔ اللہ کریم میرے شیخ المکرم مدظلہ العالی کو اس راہِ حق پہ استقامت دیں اور ہمیں اس نعم البدل کی حقیقی قدر کرنے کی توفیق بخشیں۔۔ آمین یا رب العٰلمین۔۔!! 
۔
بقلم: محمد نعمان بخاری








Friday, September 15, 2017

کشف، کرامت، الہام کی حقیقت

0 comments
یہ درست ہے کہ انسان کے اندر بہت سی پوشیدہ صلاحیتیں اور طاقتیں ایسی ہیں جن کا خود عموماً انسان کو علم یا یقین نہیں ہے اور جو مختلف ریاضتوں اور محنتوں سے حاصل ہوجاتی ہیں۔
مسمریزم، ہپناٹزم وغیرہ ایسی ہی طاقتوں کو حاصل یا ظاہر کرنے کی کوششیں ہیں.
تاہم وحی، کشف، الہام وغیرہ اس سے بالکل الگ اور مختلف چیزیں ہیں. ان چیزوں کا تعلق بندے اور اللہ جل شانہ کے تعلق کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ تعلق جب بہت قوی ہوتا ہے تو منجانب اللہ بندے کو یہ چیزیں بسا اوقات عطا ہوتی ہیں۔ 
اگر یہ تعلق نبوت کے مقام کا ہو تو یہ چیزیں بالکل قطعی، شک و شبہ سے بالاتر اور یقینی ہوتی ہیں، جیسے ابراہیم علیہ السلام کا خواب اور انبیاء کرام علیھم السلام کی وحی وغیرہ... اور اگر یہ تعلق نبوت کے مقام سے کم کسی بھی درجے کا ہو تو کشف و الہام وغیرہ کا فی نفسہ وجود تو ہوتا ہے تاہم یہ کشف و الہام قطعی اور شرعاً واجبُ الاتباع نہیں ہوتا، جیسے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا الہام....
غیر انبیاء، یعنی اولیاء کے کشف، الہام یا خواب کے بارے ميں چند چیزیں ذہن میں رکھنا ضروری ہیں۔

1: یہ قطعی اور یقینی نہیں بلکہ ظنی ہیں، اسی وجہ سے ان پر ایمان لانا یا عمل کرنا ضروری نہیں.

2: ان کے صحیح یا غلط ہونے کی میزان شریعت ہے. جو کشف، الہام یا خواب شریعت کے مطابق ہوگا اس پر عمل درست ہوگا (نہ کہ واجب) اور جو الہام خواب یا کشف شریعت کے مخالف ہوگا اسے رد کرنا واجب اور اس پر عمل حرام.

3: ولایت یا تقرب الی اللہ کے لئے یہ چیزیں نہ تو لازم ہیں اور نہ ہی معیار. کوئی بھی ایسا شخص بہت بڑا ولی ہوسکتا ہے جسے ساری زندگی کشف یا الہام نہ ہوا ہو. اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو اس قسم کی غیبی طاقتیں حاصل ہو جائیں اور وہ عند اللہ مردود ہو، جیسے دجال یا ابن صیاد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل میں ایک آیت چھپائی اور اس سے پوچھا کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تو اس نے اس آیت کے دو حرف بتا دئیے، مگر اس سے زیادہ نہ بتا سکا)

4: کشف، الہام یا کسی غیبی بات کا علم ہوجانا یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جب اللہ چاہے ہوتا ہے. یہ چیزیں نہ تو ذاتی ہوتی ہیں اور نہ ہی دائمی... یعقوب علیہ السلام کو فلسطین میں بیٹھے ہوئے مصر میں موجود یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبو آ گئی مگر جب یوسف علیہ السلام ان کے بالکل قریب کنویں میں تھے تو بالکل پتہ نہ چلا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر میں دشمنوں کی قتل گاہوں کی وحی سے اطلاع ہوگئی مگر ایک بار چند دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ کو دھوکے سے لے جاکر شہید کر دیا مگر آپ کو دشمن کے اس ارادے کی اطلاع نہ ہوئی.... حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہزاروں میل دور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ پر پشت سے وار کرنے والے دشمن کا کشف ہوگیا مگر صف میں اپنے پیچھے کھڑے ہوئے قاتل کا کشف نہ ہوا..... وجہ یہی ہے کہ معجزہ، کشف اور کرامت اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور جب اللہ چاہے تب ہوتی ہے اور جب اللہ نہ چاہے تو نہیں ہوتی. اسی طرح کئی لوگوں کا نظریہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد کشف و کرامات پہ اللہ نے پابندی اور بندش عائد کردی ہے، یہ بالکل بےدلیل اور غلط بات ہے.

5: یہ چیزیں مقصودِ شرعی نہیں ہیں۔ ایک بندے کا مقصودِ حقیقی صرف اللہ جل شانہ کی رضا کی تلاش ہے نہ کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں یا نعمتوں کا حصول.... اللہ کی طرف سے مل جائیں تو اس کا انعام، نہ ملیں تو ان سے کچھ غرض نہ ان کی کچھ تمنا..... بلکہ اس قسم کی چیزوں کی تمنا انسان میں خدا بننے کی ہوس پیدا کرکے اسے تباہ و برباد کردیتی ہے.... اسی لئے اللہ جل شانہ کے خاص بندے اللہ کی طرف سے ایسے کسی انعام پر اللہ کے سامنے اور زیادہ جھکتے، تضرع و زاری اور عاجزی کرتے ہیں۔ (رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی)

اس وقت دنیا میں فکری غلبہ چونکہ مغربیت کا ہے، اور اہل مغرب کے ہاں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ صرف تجربہ اور مشاہدہ ہے.... جو چیز مشاہدے کی قید میں آئے وہ ثابت، اور جو مشاہدے و تجربے کی قید میں نہ آئے وہ ان کے نزدیک غیر ثابت ہے. اسی لئے خدا، وحی، فرشتہ، نامہ اعمال، معجزہ، جنت اور دوزخ وغیرہ کا جدید مغربی فلسفے میں کوئی تصور نہیں..... مغرب کے اسی فلسفے سے متاثر کچھ مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ عجیب احمقانہ حرکت کرتے ہیں کہ ان غیبی امور میں سے خدا، وحی، فرشتوں اور جنت دوزخ کو تو مانتے ہیں مگر کشف، کرامات وغیرہ کا صرف عقلی بنیادوں پر نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اس کا انگریزوں ہی کی طرح خوب کھل کر مذاق بھی اڑاتے ہیں. حد یہ کہ ان چیزوں کو ثابت ماننے والے حضرات بھی مغرب سے مرعوبیت کی بنا پر ان چیزوں کو علانیہ تسلیم یا بیان کرنے سے ہچکچاتے ہیں.
حالانکہ دیکھا جائے تو جوہری طور پر جو حقیقت معجزے کی ہے وہی کشف کی ہے. دونوں اللہ کے حکم سے اللہ کے بندوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور جب اللہ کی مرضی ہوتی ہے تب ظاہر ہوتے ہیں. بندہ درحقیقت اپنے خالق و مالک کے سامنے مجبور محض ہوتا ہے اور مجبور محض ہی رہتا ہے.
معجزات و کرامات دونوں کا انکار کردینا یا دونوں کو مان لینا تو قابل فہم رویے ہیں، مگر ان میں سے ایک کو مان لینا اور دوسرے کا عقلی بنیادوں پر انکار اور استہزاء کرنا خالص حماقت اور سفاہت ہے جو "مغرب سے مرعوبیت" اور "اسلام سے نسبت" کی دو متضاد ذہنی کیفیتوں کا معجون مرکب ہے.
یاد رہے کہ جس طرح انبیاء کرام علیھم السلام کے معجزے قران پاک سے ثابت ہیں، اسی طرح اولیاء کرام کی کرامات (مریم علیھا السلام کو بے موسم کا پھل ملنا، سلیمان علیہ السلام کے وزیر کا پلک جھپکتے میں ملکہ بلقیس کا تخت لے آنا، موسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ کو موسی علیہ السلام کو صندوق میں بند کرکے نیل میں ڈال دینے کا الہام ہونا) بھی قران پاک سے ثابت ہیں.
.
تحریر: احسن خدامی 

Thursday, August 24, 2017

اسلامی اور غیراسلامی تصوف

0 comments

کوئی انسانی تحریک، خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو، جب افراط و تفریط اور عمل و ردعمل کا بازیچہ بنتی ہے تو اس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی۔۔ مثلا ہمارے متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں،، لیکن آگے چل کر جب علمِ کلام کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا تو یہی علمِ کلام مسلمانوں میں ذہنی انتشار برپا کرنے کا سبب بن گیا۔۔چنانچہ جوابا حضرات علمائے کرام نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا۔۔!

یہی حال تصوفِ اسلامی کا بھی ہوا۔۔ تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہر دلعزیزی دیکھ کر جاہل یا نقلی اربابِ غرض، صوفیوں کے بھیس میں جماعتِ صوفیاء میں گھس آئے اور اپنی مقصد برآری کے لیے شریعت و طریقت میں تفریق کا نظریہ شائع کردیا۔۔ انہی نامعقولوں نے مجاز پرستی، قبرپرستی، وجد و تواجد اور گائیکی کو روحانی ترقی کا لازمی جزو بنادیا۔۔ یہی راہزن تھے جنہوں نے دنیاپرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دے دی۔۔ مگر ہمیں اس سچ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محققین صوفیاء نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف عملی و علمی آواز بلند کی ہے اور ان فاسد عناصر کو تصوف سے خارج کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے ہیں۔۔!

یہ ایک ظلم تھا کہ دین فروشوں نے تصوف کے نام پر عوام کے عقائد سے کھلواڑ کیا۔۔ دوسرا اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ جعلی اور غیر اسلامی تصوف کی بنا پر سرے سے تصوف ہی کا انکار کر دیا جائے اور اسے نوعِ انسانی کے لیے بمنزلہٴ افیون بتایا جائے۔۔ پھر ضد بازی میں یہ نامعقول الزام عائد کیا جائے کہ تصوف زندگی کے حقائق سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔۔ یا یہ کہ تصوف نے مسلمانوں کے قوائے عمل کو مضمحل یا مردہ بنا دیا ہے۔۔ جناب! یہ سراسر بے انصافی ہے اور اسلامی تصوف پر تہمت ہے۔۔!

اس ضمن میں دورِ حاضر کی ایک بدقسمتی ملاحظہ کیجئے۔۔ ہمارے ہاں خود مسلمانوں کا ایک طبقہ جو براہِ راست اسلام اور اسلامی مآثر کا مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین اور عیسائی مصنّفین کی مستعار عینک سے اسلامی علوم و معارف کو دیکھنے کا عادی ہے،، اسلامی تصوف پر اسی قسم کے بیجا اور غلط اعتراضات کرتا رہتا ہے۔۔ یہ بات حق و صداقت اور انصاف و عدالت سے کس قدر بعید ہے کہ ہدفِ ملامت تو بنایا جائے اسلامی تصوف کو اور قبائح مدنظر رکھی جائیں غیراسلامی تصوف کی۔۔ یعنی کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا۔۔ اسلام کے یہی نادان دوست اپنے اس رویہ سے نہ صرف علم و تحقیق کا خون کرتے ہیں بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کو تصوف کی حسنات و برکات سے محروم کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔!

غیرمتعصبانہ طور پہ پرکھا جائے توصحیح معنوں میں تصوف درحقیقت اسلام کا عطر اور اس کی روح ہے۔۔ دسیسہ کاری سے پاک تصوف کی مستند کتابوں مثلاً قوتُ القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حُلیۃ الاولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالۃ القشیریۃ از امام قشیری، کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری، تذکرة الاولیاء از شیخ فرید الدین عطار، عوارف المعارف از شیخ سہروردی، فوائد الفواد ملفوظات شیخ نظام الدین اولیاء، خیرالمجالس ملفوظات شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی، شریعت اور طریقت از مولانا اشرف علی تھانوی، دلائل السلوک از مولانا اللہ یار خان، تعلیمات و برکاتِ نبوت از مولانا محمد اکرم اعوان اور ایسی سینکڑوں کتب کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے، صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملاً بھی کتاب و سنت کی تلقین ملے گی اور معتمد طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اکابر صوفیاء کے مجاہدات، ریاضات اور مراقبات کی اساس قرآن وسنت کی تعلیمات ہی ہیں اور ان کی پاکیزہ زندگیاں بیشک اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں۔۔!!