Wednesday, August 12, 2015

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

0 comments
-- بھائی آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟
٭ میں فرقہ بندی کا قائل نہیں،، سیدھا سادا مسلمان ہوں۔
-- سارے ہی خود کو مسلمان کہتے ہیں، حتیٰ کہ قادیانی بھی۔۔ ایسے میں کوئی مسلک تو لازمی ہے تاکہ عقیدے کی پہچان رہے؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت۔
-- اہلِ سنت والجماعت تو دیوبندی بھی ہیں اور بریلوی بھی، پھر؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی۔
-- الحمدللہ،، بہت عمدہ-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت، دیوبندی حیاتی یا دیوبندی مماتی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی حیاتی۔
-- ماشاء اللہ،، اللہ برکت دے-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت، دیوبندی، حیاتی اصولی یا حیاتی فروعی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی اصولی۔
-- زبردست نعمان بھائی-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی تکفیری یا تنزیہی؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی تنزیہی۔
-- سبحان اللہ،، بہت اعلٰی-- مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی، تنزیہی متشدد یا معتدل؟
٭ مسلمان، اہلِ سنت والجماعت ،دیوبندی، حیاتی، اصولی، تنزیہی معتدل۔
-- استغفراللہ،، میری توبہ۔۔ تیری پوسٹیں پڑھ کر مجھے پہلے سے شک تھا کہ تُو ایسا ہی ہے،، میں تجھے بلاک کررہا ہوں،، تُو تو پکا ایک نمبرکافر نکلا،، گستاخ کی اولاد،، نبی اور اہلِ بیت کے دشمن۔۔ دفع ہو جا منحوس۔۔۔!!!!!

اُدع إلى سبيل ربك بالحكمۃ والموعظۃ الحسنۃ

0 comments
میں دیارِغیر میں جس جگہ رہائشی ہوں وہاں قطار میں پردیسی دوستوں کے متعدد کمرے ہیں۔۔چند دن قبل جب میں اپنے کمرے سے نکلا تو وہ حسبِ معمول باہر صوفے پر براجمان تھا۔۔مجھے دیکھ کر مسکرایا اور وہی بات دہرائی جو اکثر کہتا رہتاہے۔۔ میں نے بھی وہی جواب دیا جسکی اسے توقع تھی،، یعنی مسکرا کر ہاتھ سے 'نہ' کا اشارہ۔۔ اور میں مسجد میں عشاء کی نماز کیلئے داخل ہو گیا۔۔!
نماز کے بعد میں مسجد سے کمرے میں جانے لگا تو اُس نے مجھے زبردستی روک لیا اور پوچھا، "یار تم آخر میرے لئے دعا کیوں نہیں کرتے، اور ہمیشہ انکار میں ٹال جاتے ہو؟"
میں نے کہا: "کیا دعا کروں تمہارے لئے؟"
کہنے لگا: "یہی کہ اللہ مجھے بھی نماز کی توفیق دے،، اور تم ہر دفعہ 'ناں بھئی' کہہ دیتے ہو۔۔ دعا کرنے میں کیا حرج ہے بھلا؟"
میں نے کہا: "کس سے دعا کروں؟"
وہ حیرانی سے بولا: "دعا کس سے کرتے ہیں؟ ظاہر ہے اللہ سے کرو"
میں نے کہا: "کس اللہ سے؟ اُسی اللہ سے جس کا حکم ماننے سے تم نے انکار کیا ہوا ہے؟"
وہ چونکا۔۔۔۔
میں نے اپنی بات جاری رکھی: "فرض کرو تمہارا منیجر تمہیں کوئی اہم کام سونپے، تو تم کیا کرو گے؟ کیا اسکی بات فوراً مان لو گے؟ اِس ڈر سے کہ کہیں وہ تمہیں کمپنی سے نکال ہی نہ دے۔۔ یا پھر میرے پاس آؤ گے کہ بھئی منیجر نے مجھے فلاں کام کہا ہے،تو یار، تم منیجر کو کہو کہ ، منیجر صاحب۔۔جمیل یہ کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کہو کہ جمیل یہ کام کر لے"
"کیا مطلب ہے تمہارا؟" وہ جھنجھلا کربولا۔
میں نے کہا: "مجھے بات مکمل تو کر لینے دو یار "
وہ ہنس کر بولا: "اچھا اچھا ، جھاڑو اپنی فلا سفی۔۔"
میں بولا: "ہاں تو، ظاہر ہے کہ تم مجھے ایسا کبھی نہیں کہو گے کہ میں جا کر دوبارہ منیجر سے کہوں کہ منیجر صاحب !جمیل آپکا حکم نہیں ماننا چاہ رہا، اسے فلاں کام کیلئے دوبارہ کہیں۔۔۔ تو کیا سوچے گا منیجر، اور تمہارا کیا حشر کرے گا۔۔"
وہ میری'منطق' سن کر دلچسپی سے کہنے لگا: "اپنی بات کُھل کر کہو، میرا دماغ اتنا کام نہیں کرتا"
میں فلاسفی کو سہل کرتے ہوئے اسے اصل پوائنٹ پر لے آیا: "دیکھو بھئی، بات سیدھی سی ہے۔۔ اللہ نے تمہیں ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ نماز پڑھنے کا کہا ہے قرآن میں،، حالانکہ ایک دفعہ کہہ دینا ہی تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے تھا۔۔ لیکن وہ اتنا کریم ہے کہ اس سب کے باوجود بھی تمہیں ہردن میں20 دفعہ اپنے گھر میں بلاتا ہے، نماز کیلئے۔۔ تمہاری فلاح کیلئے۔۔"
وہ اب مکمل سنجیدہ ہو کر سُن رہا تھا۔۔۔۔
"تم نے کلمہ طیبہ پڑھ کر خود ہی تو اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ یا اللہ تُو ہی میرا معبود ہے۔۔ میں اب ہمیشہ تیری عبادت کروں گا۔۔ یہ اقرار نامہ بھول گئے ہو کیا؟
اب تم ہی مجھے بتاؤ کہ میں کس منہ سے اللہ سے کہوں کہ وہ تمہیں نماز کی توفیق دے؟ جبکہ وہ تمہیں پہلے سے ہی توفیق دے چکا ہے۔۔ یعنی تم اذان سن سکتے ہو،، تمہارے پاؤں سلامت ہیں،، ہاتھ موجود ہیں،، اللہ نے دیکھنے اور چلنے کی قوت بھی دی ہوئی ہے،، جا کر وضو کر سکتے ہو۔۔ تو پھر اور کیا توفیق دے تمہیں؟؟ اب آسمان سے فرشتے تو آنے سے رہے جو تمہیں زبردستی اُٹھا کر مسجد میں چھوڑنے جائیں گے۔"
وہ اپنا سر جھکائے جا رہا تھا۔۔۔۔
"میں اسی وجہ سے ہی کہتا ہوں کہ بھئی میں تمہارے لئے یہ دعا نہیں کر سکتا،، کہ کہیں گستاخی نہ کر بیٹھوں اُسکی بارگاہ میں۔۔ کل جب تم سے حشر کا پہلا سوال ہو گا کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے؟ تو صاف صاف کہہ دینا کہ یا اللہ، نہ تو میرے لیے کسی نے دعا کی تھی اور نہ ہی آپ نے مجھے نماز کی توفیق دی تھی،، تو کیسے پڑھتا؟؟"
اپنی تقریر جھاڑ کر میں تو کمرے میں چلا گیا اور وہ وہیں بُت بنا کھڑا رہا۔۔
کمرے میں جاکر میں نے اللہ کریم سے سرگوشی کی،، ''اے اللہ، میں نے اپنا فرض ادا کردیا،، اب تُو ہی کرم فرما کر اسکا ہاتھ تھام لے اور اسکے قلب کی اصلاح فرما۔۔''
تھوڑی دیر بعد جب میں ڈریس چینج کرکے کرکٹ گراؤنڈ جانے کیلئے باہر نکلا تو وہ نمازِ عشاء کیلئے وضو کر کے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کے وضو کے بعد کی دعا پڑھ رہا تھا،،
" اَشہدُ اَن لّا اِلٰہ اِلّااللہُ وَ اَشہدُ اَنَّ مُحمداً عبدہُ و رَسُولُہ "
میں گراؤنڈ کی جانب چلتا جا رہا تھا،، اور میری آنکھوں سے خوشی و تشکر کے آنسو رواں تھے۔۔!!
(تحریر: محمدنعمان بخاری)

ہماری نمازیں بے اثر کیوں؟ علاج کیا ہے؟

0 comments
"کوئی شک نہیں کہ نماز بے حیائیوں اور منکرات سے دور کر دیتی ہے"
لیکن ہماری نمازیں ہمیں برائیوں سے کیوں نہیں روک رہیں؟ وجہ کیا ہے؟
اسلئے کہ ہم نماز کا صرف ٹوٹل پورا کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔۔ دورانِ نماز بھی خیالات کی اپنی دنیا میں اٹکے ہوتے ہیں۔۔اصل میں ہمیں نماز سے وہ کیفیت مطلوب ہی نہیں جو نماز کا خاصہ ہے،، یعنی۔۔
"عبادت ایسے کرو گویا تم اللہ کے روبرو ہو اور اُسے دیکھ رہے ہو،، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا احساس توضرور ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ "
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں تیر لگا۔۔ نکالنے سے سخت تکلیف ہوتی تھی۔۔ مشورہ ہوا کہ جب آپ نماز پڑھیں تو نکال لیا جائے گا۔۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا،، اور آپ کو معلوم ہی نہ پڑا کہ کب تیر نکالا گیا۔۔ اس قدر محویت تھی۔۔ یہ حالت نہ سہی،، کاش!اس کا کوئی ایک ذرہ تو ہمیں بھی عطا ہو جائے۔۔!
مگر۔!یہ کیفیت صرف باتیں کرنے،، کتابیں پڑھنے،، بیانات سننے اور فیس بک کی اسلامی پوسٹس پر واہ واہ،، آمین اور سبحان اللہ کے کمنٹس کرنے سے حاصل نہیں ہو گی،، بلکہ اسکے لئے کسی صحیح العقیدہ اللہ والے بزرگ کی صحبت اختیار کرنا ہو گی،، اسکے بتائے ہوئے مجاہدے اور ذکرُاللہ کو اپنانا ہوگا۔۔!
نتیجے میں اللہ پاک ہمارے دل میں وہ برکات اور کیفیات عطا فرمائیں گے جو ہماری عبادات کو خلوص عطا کریں گی،، ہمیں نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے میں مزہ آئے گا۔۔ قرآن مجید کو سمجھنے کا ذوق پیدا ہوگا۔۔ حق کو حق کے طور پر دیکھنے اور باطل کو باطل کے طور پر سمجھنے کا شعور عطا ہوگا۔۔اللہ کو عبادات کی مقدار سے کوئی غرض نہیں،، معیار سےمطلب ہے۔۔اور معیار ہے' خلوص'۔۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت والے دن اعمال گنے نہیں جائیں گے بلکہ تولے جائیں گے۔۔ اس بنا پر ہو سکتا ہے کہ کسی شخص کا قلب کی اتھاہ گہرائی و خلوص سے ایک مرتبہ'سبحان اللہ' کہہ دینا دوسرے کی سینکڑوں تسبیحات پر بھاری ہو۔۔اسی خلوص کے حاصل کرنے کیلئے محنت کرنے کو اپنا 'تزکیہ' کرنا کہتے ہیں۔۔!
حصولِ تزکیہ کے بعد حالت کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ ہم برائی کے ارادے سے نکلتے ہیں تو نماز راستہ روک لیتی ہے اور اُلٹے قدموں لوٹنے پر اُکساتی ہے۔۔ ہم رشوت لینے کیلئے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو نماز ہمارا گریبان پکڑ کر ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔۔!
لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ کیا ہم ایسا چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟
یہ فیصلہ ہمارے دلی ارادے اور اس پر عمل کا محتاج ہے۔۔کیونکہ قانونِ قدرت ہے کہ ہدایت اُسی کو ملے گی جو اپنےقلبی ارادے سے ہدایت کے راستے کی طلب و جدوجہد کرےگا۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)