ایک صاحب کا کمنٹ پڑھا کہ اگر تصوف کی اصل سنت ہے تو یہ چلہ کشی اور لطائف وغیرہ کی باتیں سنت میں کہاں ہیں ؟
۔
حیرت تو اس پر تھی کہ وہ صاحب شاہ ولی اللہ دھلویؒ اور ان کے علمی وارثین سے گہرا لگاؤ بھی رکھتے تھے ۔
سوال پیدا ہوا کہ یہ صاحب جو سوال تصوف پر اٹھا رہے ہیں اور اس بنیاد پر اسے خلافِ سنت یا سنت سے باہر کی چیز سمجھ رہے ہیں تو کیا انہیں یہ اشکال صرف تصوف کے حوالے سے ہی پیدا ہوا ہے ؟
وہ اصولِ فقہ جس میں بے شمار اصطلاحات اور بے شمار مباحث ایسی ہیں جن کا سنت میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ مثلا علت اور معلول کی بحث کو ہی لے لیجئے ۔ اب جس نے صرف یہ دو لفظ ہی سنے ہیں اس سے تو خطاب نہیں، مگر جس نے کتبِ اصول میں ان مباحث کے درجنوں صفحات دیکھے ہوں تو کیا وہ ان کا وجود سنت میں دکھا سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ الا یہ کہ استنباطات واشارات سے کام لیں۔ تو یہاں بھی یہ کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا کہ تصوف کی یہ اصطلاحات بھی بعد کے حالات میں پیدا شدہ حوادث و نوازل کے سبب وجود میں آئی ہیں اور یہ بات تو بہر حال واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح جسمانی معاملات میں حوادث و نوازل پیش آتے رہتے ہیں اسی طرح قلبی و باطنی معاملات میں بھی حوادث و نوازل پیش آتے رہتے ہیں ۔
حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ بدن میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ سدھر جائے تو پورا بدن سدھر جاتا ہے اور وہ بگڑ جائےتو پورا بدن بگڑ جاتا ہے۔ جان لو کہ وہ قلب ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہاں سدھرنے اور بگڑنے سے طبی نوعیت کا سدھار اور بگاڑ مراد نہیں ہے بلکہ دینی و روحانی نوعیت کا سدھار و بگاڑ ہے ۔ اب جس طرح جسمانی نوعیت کے سدھار اور بگاڑ کے لیے پورا علم اور اس کی اصطلاحات اور مباحث وجود میں آئی ہیں اور پھر ان میں سے بعض شریعت کے مطابق ہوتی ہیں اور بعض خلافِ شریعت بھی، اسی طرح باطنی و روحانی سدھار و بگاڑ میں تو جسمانی سے بھی زیادہ بگاڑ اور سدھار کی مختلف شکلیں اور نوعیتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور رہیں گی۔ اسی لیے اس باب کو اہلِ علم صوفیاء نے اپنے تجربات اور نصوص کے اشارات و استنباطات کی روشنی میں مرتب و مدون کیا ہے ۔ جس میں بہرحال جزوی اور اختلافی طور پر صحیح اور غلط کی تفریق جاری ہوتی ہے جس طرح کہ ہر علم میں ہے، مگر اس علم و فن کو سرے سے ہی بے بنیاد سمجھنا اور اس کی اصطلاحات کو بدعت قرار دینا اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحات کو فہمِ دین میں معاون و مددگار سمجھنا، یہ تفریق کم فہمی کے سبب ہی ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں نہیں۔
ھذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب
۔۔۔
بشکریہ: مدثر جمال
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔