Saturday, August 4, 2018

چلہ کشی اور لطائف وغیرہ - اصطلاحاتِ تصوف پہ اشکال کا جواب

0 comments

ایک صاحب کا کمنٹ پڑھا کہ اگر تصوف کی اصل سنت ہے تو یہ چلہ کشی اور لطائف وغیرہ کی باتیں سنت میں کہاں ہیں ؟
۔
حیرت تو اس پر تھی کہ وہ صاحب شاہ ولی اللہ دھلویؒ اور ان کے علمی وارثین سے گہرا لگاؤ بھی رکھتے تھے ۔
سوال پیدا ہوا کہ یہ صاحب جو سوال تصوف پر اٹھا رہے ہیں اور اس بنیاد پر اسے خلافِ سنت یا سنت سے باہر کی چیز سمجھ رہے ہیں تو کیا انہیں یہ اشکال صرف تصوف کے حوالے سے ہی پیدا ہوا ہے ؟
وہ اصولِ فقہ جس میں بے شمار اصطلاحات اور بے شمار مباحث ایسی ہیں جن کا سنت میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ مثلا علت اور معلول کی بحث کو ہی لے لیجئے ۔ اب جس نے صرف یہ دو لفظ ہی سنے ہیں اس سے تو خطاب نہیں، مگر جس نے کتبِ اصول میں ان مباحث کے درجنوں صفحات دیکھے ہوں تو کیا وہ ان کا وجود سنت میں دکھا سکتے ہیں؟ یقینا نہیں۔ الا یہ کہ استنباطات واشارات سے کام لیں۔ تو یہاں بھی یہ کیوں نہیں سمجھ لیا جاتا کہ تصوف کی یہ اصطلاحات بھی بعد کے حالات میں پیدا شدہ حوادث و نوازل کے سبب وجود میں آئی ہیں اور یہ بات تو بہر حال واضح رہنی چاہیے کہ جس طرح جسمانی معاملات میں حوادث و نوازل پیش آتے رہتے ہیں اسی طرح قلبی و باطنی معاملات میں بھی حوادث و نوازل پیش آتے رہتے ہیں ۔ 
حدیث نبوی کا مفہوم ہے کہ بدن میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ سدھر جائے تو پورا بدن سدھر جاتا ہے اور وہ بگڑ جائےتو پورا بدن بگڑ جاتا ہے۔ جان لو کہ وہ قلب ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہاں سدھرنے اور بگڑنے سے طبی نوعیت کا سدھار اور بگاڑ مراد نہیں ہے بلکہ دینی و روحانی نوعیت کا سدھار و بگاڑ ہے ۔ اب جس طرح جسمانی نوعیت کے سدھار اور بگاڑ کے لیے پورا علم اور اس کی اصطلاحات اور مباحث وجود میں آئی ہیں اور پھر ان میں سے بعض شریعت کے مطابق ہوتی ہیں اور بعض خلافِ شریعت بھی، اسی طرح باطنی و روحانی سدھار و بگاڑ میں تو جسمانی سے بھی زیادہ بگاڑ اور سدھار کی مختلف شکلیں اور نوعیتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور رہیں گی۔ اسی لیے اس باب کو اہلِ علم صوفیاء نے اپنے تجربات اور نصوص کے اشارات و استنباطات کی روشنی میں مرتب و مدون کیا ہے ۔ جس میں بہرحال جزوی اور اختلافی طور پر صحیح اور غلط کی تفریق جاری ہوتی ہے جس طرح کہ ہر علم میں ہے، مگر اس علم و فن کو سرے سے ہی بے بنیاد سمجھنا اور اس کی اصطلاحات کو بدعت قرار دینا اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحات کو فہمِ دین میں معاون و مددگار سمجھنا، یہ تفریق کم فہمی کے سبب ہی ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں نہیں۔ 
ھذا ماعندی و اللہ اعلم بالصواب
۔۔۔
بشکریہ: مدثر جمال

Wednesday, June 20, 2018

ذکرِ قلبی خفی کا طریقہ

4 comments
بہت سے دوستوں کی طرف سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ جو ذکر کرتے ہیں اسکا طریقہ بتا دیں.. انباکس میں فرداً فرداً جواب تو دے دیا ہے مگر بہتر ہے کہ سب کے افادہ کیلئے یہاں بھی لکھ دیا جائے..!
۔
ہم جو ذکر کرتے ہیں اسے ذکرقلبی یا ذکرِ خفی کہا جاتا ہے.. احادیث مبارکہ کے مطابق یہ ذکرِ لسانی (زبانی) سے ستر گنا افضل ہے کیونکہ اسے فرشتے بھی نہیں سن سکتے.. صرف اللہ کریم کو پتہ ہوتا ہے کہ میرا بندہ مجھے یاد کررہا ہے.. اس ذکر کو کرنے کی اجازتِ عام ہے.. فوائدِ باطنی، اصلاحِ نفس، اطمینانِ قلب، نماز میں وساوس سے نجات اور یکسوئی کے حصول نیز تزکیہِ نفس کے ضمن میں یہ انتہائی اکسیر ہے.. اسکا اسلوب صوفیاء نے قرآنِ حکیم سے اخذ کیا ہے اور انکے تجربات کا نچوڑ ہے.. آج بھی بےشمار اللہ والوں کے معمولات میں شامل ہے..!
۔
ذکرِ قلبی کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ صبح شام کچھ وقت (15-20 منٹ تقریباً) کیلئے خود کو دنیا والوں سے علیحدہ کر لیں.. قبلہ کی طرف چہرہ کرکے بیٹھ جائیں.. منہ اور آنکھیں بند کرلیں.. بہتر ہے کہ لائٹ بجھا دیں.. تمام خیالات کو کمرے سے باہر رکھ دیں.. اب اللہ پاک کی ذات کا تصور کریں.. ناک کے ذریعے لئے گئے اپنے سانسوں کی آمدورفت کا یوں دھیان رکھیں کہ اندر جانے والا ہر سانس لفظ ''اللہ'' اپنے ساتھ لے کر جائے اور اللہ کا یہ ذاتی اسم اپنی پوری برکات، نورانیت کیساتھ آپکے دل (قلب) میں اتر جائے.. باہر آنے والا سانس لفظ ''ھو'' بن کے نکلے اور اس ''ھو'' کی ضرب یا چوٹ دل پر لگے.. یعنی ''اللہ ھو'' کا ذکر کرنا ہے کچھ وقت کیلئے.. قدرے تیزی سے سانس لیں.. گردن اور جسم کی ہلکی سی حرکت بھی سانس کے آنے جانے میں شامل ہو جائے تو مزید توجہ حاصل ہو گی.. کچھ دیر بعد سانس اور بدن نارمل کرلیں مگر توجہ ٹوٹنے نہ پائے.. ہر سانس پہ نگرانی رہے کہ کوئی بھی سانس "اللہ ھو" سے خالی نہ جائے.. توجہ برقرار رہے.. لگاتار اور مسلسل یہ سلسلہ جاری رہے، پھر دعا کرلیں.. یہ پہلا سبق ہے..!
.
خیراندیش: محمد نعمان بخاری
۔
شیخ المکرم مولانا عبدالقدیر اعوان مدظلہ العالی کی زبانی ذکرِ قلبی کا طریقہ سمجھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے۔