یہ درست ہے کہ انسان کے اندر بہت سی پوشیدہ صلاحیتیں اور طاقتیں ایسی ہیں جن کا خود عموماً انسان کو علم یا یقین نہیں ہے اور جو مختلف ریاضتوں اور محنتوں سے حاصل ہوجاتی ہیں۔
مسمریزم، ہپناٹزم وغیرہ ایسی ہی طاقتوں کو حاصل یا ظاہر کرنے کی کوششیں ہیں.
تاہم وحی، کشف، الہام وغیرہ اس سے بالکل الگ اور مختلف چیزیں ہیں. ان چیزوں کا تعلق بندے اور اللہ جل شانہ کے تعلق کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ تعلق جب بہت قوی ہوتا ہے تو منجانب اللہ بندے کو یہ چیزیں بسا اوقات عطا ہوتی ہیں۔
اگر یہ تعلق نبوت کے مقام کا ہو تو یہ چیزیں بالکل قطعی، شک و شبہ سے بالاتر اور یقینی ہوتی ہیں، جیسے ابراہیم علیہ السلام کا خواب اور انبیاء کرام علیھم السلام کی وحی وغیرہ... اور اگر یہ تعلق نبوت کے مقام سے کم کسی بھی درجے کا ہو تو کشف و الہام وغیرہ کا فی نفسہ وجود تو ہوتا ہے تاہم یہ کشف و الہام قطعی اور شرعاً واجبُ الاتباع نہیں ہوتا، جیسے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا الہام....
غیر انبیاء، یعنی اولیاء کے کشف، الہام یا خواب کے بارے ميں چند چیزیں ذہن میں رکھنا ضروری ہیں۔
1: یہ قطعی اور یقینی نہیں بلکہ ظنی ہیں، اسی وجہ سے ان پر ایمان لانا یا عمل کرنا ضروری نہیں.
2: ان کے صحیح یا غلط ہونے کی میزان شریعت ہے. جو کشف، الہام یا خواب شریعت کے مطابق ہوگا اس پر عمل درست ہوگا (نہ کہ واجب) اور جو الہام خواب یا کشف شریعت کے مخالف ہوگا اسے رد کرنا واجب اور اس پر عمل حرام.
3: ولایت یا تقرب الی اللہ کے لئے یہ چیزیں نہ تو لازم ہیں اور نہ ہی معیار. کوئی بھی ایسا شخص بہت بڑا ولی ہوسکتا ہے جسے ساری زندگی کشف یا الہام نہ ہوا ہو. اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کو اس قسم کی غیبی طاقتیں حاصل ہو جائیں اور وہ عند اللہ مردود ہو، جیسے دجال یا ابن صیاد (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل میں ایک آیت چھپائی اور اس سے پوچھا کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تو اس نے اس آیت کے دو حرف بتا دئیے، مگر اس سے زیادہ نہ بتا سکا)
4: کشف، الہام یا کسی غیبی بات کا علم ہوجانا یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور جب اللہ چاہے ہوتا ہے. یہ چیزیں نہ تو ذاتی ہوتی ہیں اور نہ ہی دائمی... یعقوب علیہ السلام کو فلسطین میں بیٹھے ہوئے مصر میں موجود یوسف علیہ السلام کی قمیص کی خوشبو آ گئی مگر جب یوسف علیہ السلام ان کے بالکل قریب کنویں میں تھے تو بالکل پتہ نہ چلا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر میں دشمنوں کی قتل گاہوں کی وحی سے اطلاع ہوگئی مگر ایک بار چند دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ کو دھوکے سے لے جاکر شہید کر دیا مگر آپ کو دشمن کے اس ارادے کی اطلاع نہ ہوئی.... حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہزاروں میل دور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ پر پشت سے وار کرنے والے دشمن کا کشف ہوگیا مگر صف میں اپنے پیچھے کھڑے ہوئے قاتل کا کشف نہ ہوا..... وجہ یہی ہے کہ معجزہ، کشف اور کرامت اللہ کے حکم سے ہوتی ہے اور جب اللہ چاہے تب ہوتی ہے اور جب اللہ نہ چاہے تو نہیں ہوتی. اسی طرح کئی لوگوں کا نظریہ ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد کشف و کرامات پہ اللہ نے پابندی اور بندش عائد کردی ہے، یہ بالکل بےدلیل اور غلط بات ہے.
5: یہ چیزیں مقصودِ شرعی نہیں ہیں۔ ایک بندے کا مقصودِ حقیقی صرف اللہ جل شانہ کی رضا کی تلاش ہے نہ کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں یا نعمتوں کا حصول.... اللہ کی طرف سے مل جائیں تو اس کا انعام، نہ ملیں تو ان سے کچھ غرض نہ ان کی کچھ تمنا..... بلکہ اس قسم کی چیزوں کی تمنا انسان میں خدا بننے کی ہوس پیدا کرکے اسے تباہ و برباد کردیتی ہے.... اسی لئے اللہ جل شانہ کے خاص بندے اللہ کی طرف سے ایسے کسی انعام پر اللہ کے سامنے اور زیادہ جھکتے، تضرع و زاری اور عاجزی کرتے ہیں۔ (رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی)
اس وقت دنیا میں فکری غلبہ چونکہ مغربیت کا ہے، اور اہل مغرب کے ہاں کسی بھی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کا پیمانہ صرف تجربہ اور مشاہدہ ہے.... جو چیز مشاہدے کی قید میں آئے وہ ثابت، اور جو مشاہدے و تجربے کی قید میں نہ آئے وہ ان کے نزدیک غیر ثابت ہے. اسی لئے خدا، وحی، فرشتہ، نامہ اعمال، معجزہ، جنت اور دوزخ وغیرہ کا جدید مغربی فلسفے میں کوئی تصور نہیں..... مغرب کے اسی فلسفے سے متاثر کچھ مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ عجیب احمقانہ حرکت کرتے ہیں کہ ان غیبی امور میں سے خدا، وحی، فرشتوں اور جنت دوزخ کو تو مانتے ہیں مگر کشف، کرامات وغیرہ کا صرف عقلی بنیادوں پر نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اس کا انگریزوں ہی کی طرح خوب کھل کر مذاق بھی اڑاتے ہیں. حد یہ کہ ان چیزوں کو ثابت ماننے والے حضرات بھی مغرب سے مرعوبیت کی بنا پر ان چیزوں کو علانیہ تسلیم یا بیان کرنے سے ہچکچاتے ہیں.
حالانکہ دیکھا جائے تو جوہری طور پر جو حقیقت معجزے کی ہے وہی کشف کی ہے. دونوں اللہ کے حکم سے اللہ کے بندوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوتے ہیں اور جب اللہ کی مرضی ہوتی ہے تب ظاہر ہوتے ہیں. بندہ درحقیقت اپنے خالق و مالک کے سامنے مجبور محض ہوتا ہے اور مجبور محض ہی رہتا ہے.
معجزات و کرامات دونوں کا انکار کردینا یا دونوں کو مان لینا تو قابل فہم رویے ہیں، مگر ان میں سے ایک کو مان لینا اور دوسرے کا عقلی بنیادوں پر انکار اور استہزاء کرنا خالص حماقت اور سفاہت ہے جو "مغرب سے مرعوبیت" اور "اسلام سے نسبت" کی دو متضاد ذہنی کیفیتوں کا معجون مرکب ہے.
یاد رہے کہ جس طرح انبیاء کرام علیھم السلام کے معجزے قران پاک سے ثابت ہیں، اسی طرح اولیاء کرام کی کرامات (مریم علیھا السلام کو بے موسم کا پھل ملنا، سلیمان علیہ السلام کے وزیر کا پلک جھپکتے میں ملکہ بلقیس کا تخت لے آنا، موسی علیہ السلام کی والدہ محترمہ کو موسی علیہ السلام کو صندوق میں بند کرکے نیل میں ڈال دینے کا الہام ہونا) بھی قران پاک سے ثابت ہیں.
.
تحریر: احسن خدامی