Tuesday, November 10, 2015

علامہ اقبالؒ اور تصوف

0 comments
جو لوگ شرعی تزکیہ کے مقابل ایک الگ نظریہ کی حیثیت سے تصوف کی کھلی تردید کرتے ہیں اور ساتھ ہی علامہ اقبالؒ سے گہری عقیدت بھی رکھتے ہیں وہ علامہ کے افکار و خیالات کی تاویل کرتے ہیں، حالانکہ عقیدت و محبت اپنی جگہ ہے اور اصولوں کے حوالے سے گفتگو اپنی جگہ ہے۔ صاف ستھری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری میں تصوف انتہائی اہم عنصر ہے۔ اقبال کی شاعری میں جو رمزیت اور ماورائی کیف ہے اس میں تصوف کا خاص دخل ہے ۔ جنوں، وجود، خرد، عشق کے الفاظ اقبال کے یہاں جب پڑھنے میں آ تے ہیں تو ان کا حسن الگ ہی محسوس ہوتا ہے۔ آپ غور کیجئے تو یہ الگ احساسِ حسن اقبال نے تصوف سے ہی پیدا کیا ہے۔ اگر کہیں پورا پورا تصوف نہیں تو کم ازکم اس کی اصطلاحات ہیں، اصطلاحات نہیں تو اسلوب ہے، اسلوب بھی نہیں تو تصوف کی گرمی مگر ہے۔
'شکوہ' اقبال کا شاہکار ہے۔ اس کے بعد اقبال کو شاعر کہنے کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ 'شکوہ' صاف تصوف کی جرأت مجذوبانہ اور ہمت رندانہ ہے۔'ہرجائی' جو اردو میں آوارہ اور بد چلن عورت کے لئے آتا ہے، کم از کم بد معاشی کی سطح پر بے۔ وفائی اس لفظ کی امتیازی شان ہے۔ مگر دیکھئے اقبال نے رب کے حضور میں عرض کر ڈالا: 'بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے'۔ اسے ہم منصور حلّاج کی طریقت نہ کہیں تو کیا کہیں۔ منصور کے اعتراف میں ذرا دیکھئے اقبال کیسا کیسا بچ بچ کے بول رہا ہے۔
؎ خود گیری و خودداری و گل بانگ انا الحق
آزاد ہو سالک تو یہ ہیں اس کے مقامات

ہمارے علماء کرام جب کلام اقبال میں لفظ 'مقام' پڑھتے ہیں تو اس کا ڈکشنری معنی سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے مقامات میں متصوفانہ مفہوم میں استعمال ہے اور یہاں بھی مقامات کا مفہوم صوفیانہ اصطلاحات میں بند ہے۔ ایک اور جگہ اقبال کہتا ہے۔
؎ کیا نوائے اناالحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ

کسی کی فکر اگر نظم میں متعین نہ ہو سکے تو نثر میں ضرور ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے اپنے خطبات میں صاف کہہ دیا ہے کہ حلّاج کے معاصرین و اخلاف نے اس کے نعرۂ انا الحق کا غلط مطلب نکالا اور اس کی تشریح 'وجودیت' سے کردی۔
جو لوگ افکار اقبال کو ادوار میں تقسیم کرتے ہیں بعض افکار کے حوالے سے یہ تقسیم درست ہو سکتی ہے لیکن تصوف کے باب میں یہ محض تسلی اور خوش عقیدگی ہے۔ تصوف کے خلاف کلام اقبال میں جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ اقبال نے تصوف پر جا بجا طنز کیا ہے، لیکن اس طنز کی نوعیت تردید کی نہیں تنبیہ کی ہے۔ محبوبانہ تنبیہ!
قابل غور ہے کہ کلام اقبال میں صرف تصوف پر طنز نہیں ہے اور بھی چیزوں پر ہے جو ثوابت اور مسلمات کے حکم میں ہیں۔ دیکھئے:
؎ تمد ن، تصوف، شریعت، کلام 
بُتانِ عجم کے پجاری تمام

یہاں شریعت پر طنز ہے۔ اب فرمائیے؟ حقیقت یہ ہے کہ 'ساقی نامہ' جہاں سے یہ شعر ماخوذ ہے، پورا کا پورا تصوف اور فلسفہ کی زمین سے نکلا ہے۔ اسلوب، الفاظ، بیان کی گرمی اور گہرائی سب تصوف اور فلسفہ سے کشید ہیں۔
اس قسم کے اور بھی اشعار ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
؎ کسے خبر کہ سفینے ڈبو گئی کتنے 
فقیہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی

؎ قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا 
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

؎ سکھا دیئے ہیں اسے شیوہ ھائے خانقہی 
فقیہ شہر کو صوفی نے کر دیا ہے خراب

ان اشعار میں غور کیجئے تو اندازہ ہوگا کہ ساری تنبیہات محبوبانہ ہیں ورنہ اقبال نے شاعر ہونے کے باوجود شعراء کی بھی نفی کی ہے۔ اصل یہ ہے کہ اقبال خانقاہی تصوف کی تردید کرتا ہے لیکن میدانِ تصوف کا قائل ہے جسے ماڈرن تصوف بھی کہہ سکتے ہیں۔ ترکِ جہاد کی تعلیم دینے والا صوفی اس کو نہیں بھاتا ورنہ اقبال خود اپنے لئے اشارے میں صوفیت کو پسند کرتا ہے۔
؎ کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

ہمارے علما ء کرام تصوف کو صرف ظاہر الفاظ میں دیکھتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تصوف کی بعض اصطلاحات ہی جانتے ہیں۔ وہ نہ تو اس کے مزاج سے واقف ہیں اور نہ اس کے ادب سے۔ حتیٰ کہ یہ شعر بھی وہ تصوف سے نہیں جوڑتے۔
؎ توابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر وحجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور 
ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر



قیدِ مقام' سے گزرنے میں جو حدّت اور تیزی ہے وہ آشنائے تصوف ہی کچھ محسوس کر سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ علمائے ظواہر تصوفِ اقبال کو یہاں بھی محسوس نہیں کر پاتے۔
؎ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے تیرا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں

علم کی تحقیر اور عشق کی تفضیل صوفیاء کا خاص نظریہ ہے۔ اقبال کو یہیں دیکھ لیجئے:
؎ عشق سراپا حضور 
علم سراپا حجاب 
علم ہے پیدا سوال 
عشق ہے پنہاں جواب
علم ہے ابن الکتاب 
عشق ہے ام الکتاب

ابن الکتاب میں جو تندی ہے اور ام الکتاب میں جو تقدیس ہے، یہ صرف اہل نظر محسوس کرسکتے ہیں۔
'ابلیس' محترم اقبال کے سہارے دیکھئے کیسی بولی بول رہے ہیں اور جبریل چار وناچار سماعت فرما رہے ہیں۔
؎ خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

اور یوں بھی:
؎ گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو

یہ اشعار بھی ملاحظہ کریں:
؎ علم فقیہ و حکیم فقر مسیح وکلیم 
علم ہے جو یائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر علم مقام خبر 
فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ

اسی طرح: 
؎ عقل گو آستاں سے دور نہیں 
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

یہ سارے اشعار بڑے شرعی طور طریق سے باندھے گئے ہیں لیکن طریقت کی گرمی صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ اقبال کی دوستانہ بے تکلفی اور چھیڑ چھاڑ دیکھنا ہو تو یہ پڑھیں۔
؎ کمال جوش جنوں میں رہا میںگرم طواف 
خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف

؎ تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ 
اپنے لئے لا مکاں میرے لئے چار سو

اقبال ہی کا ایک شعر ہے:
؎ خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں 
جو ناز بھی ہے تو بے لذت نیاز نہیں

یہ شعر اقبال نے بڑے ہی شرعی انداز میں باندھا ہے اور عام طور پر اقبال کے کم ہی اشعار ایسے ملیں گے جنہیں شرعی طور پر باندھا نہیں گیا ہے۔ لیکن غور کیجئے تو خمیر تصوف کی مٹی کا ہے۔ حلّاج کے جلال 'انا الحق' میں صوفیاء ایک جمال پوشیدہ مانتے ہیں۔ یہاں ناز میں لذت نیاز کی اٹھان اسی قسم کی ہے۔ علماء کرام اور طلباء عظام یہ شعر خوب خوب استعمال کرتے ہیں۔
؎ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

یہ دراصل ناز میں لذت نیاز کا ہی پیدا کردہ ہے۔ جب اقبال کہتا ہے:
؎ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں 
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

تو اس میں 'نظر' کی معنویت صوفیانہ تعبیرات کی رہین نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی تو اقبال فرشتوں سے بھی بےتکلف دکھائی دیتا ہے:
؎ نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ

عالم خیا ل میں اقبال حج کو جاتے ہیں اور قلبی غرض مدینہ ہے۔ چنانچہ خدا کو مکہ میں چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف چل پڑتے ہیں:
؎ تو باش ایں جاں وبا خاصاں بیا میز 
کہ من دار م ہوائے منزل دوست

اگر کسی کو بہت انکار ہو تو وہ 'التجائے مسافر' پڑھ لے جو بہ درگاہ محبوب الہٰی ﷺ پیش کی گئی ہے اور بہت کچھ سوالات شاعرانہ رکھ گئے ہیں۔ ابتدائی اشعار میں شعر و تصوف کا آمیزہ ملاحظہ کیجئے:
؎ فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا 
بڑی جناب تری فیض عام ہے تیرا
ستارے عشق کے تیری کشش سے قائم ہیں 
نظام مہر کی صورت نظام ہے تیرا
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی 
مسیح وخضر سے اونچا مقام ہے تیرا

الغرض اقبال نے ضربیں ماری ہوں نہ ماری ہوں۔ اسے حال آیا ہو نہ آیا ہو، یہ تسلیم ہے۔ لیکن اقبال نے حکیم سنائی، مولانائے روم، منصور حلاج اور ابن عربی کے نظریات سے بھر پور استفادہ کیا ہےاور ان کے افکار کو زبان دے دی ہے،، شرعی زبان اور شاعرانہ کیف۔۔!!

— ابو صبیحہ