ویسے تو تصوفِ اسلامی پہ بیشمار سوالات کئے جاتے ہیں لیکن ایک اعتراض نما سوال جو اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ "صوفیاء کو کشف و مشاہدہ اور وجدان کیوں ہوتا ہے؟"
اب اسکا بندہ کیا جواب دے۔۔ بھئی ہوتا ہے تو ہوتا ہے۔۔ آپ روک سکتے ہیں تو کوشش کرلیں۔۔ یا اللہ سے دعا کریں کہ وہ صوفیاء کے مکاشفات پہ کرفیو نافذ کر دے۔۔ کمال کرتے ہیں آپ۔۔ یہ اللہ کی عطا ہے، جسے چاہے نصیب کرے۔۔ ہم کون ہوتے ہیں اسے مشورے دینے والے۔۔ البتہ یہ سوال قابلِ اعتناء اور معقول لگتا ہے کہ "صوفیاء کو مکاشفات کیسے ہوتے ہیں؟"
ذکراللہ کی کثرت سے جب قلب پر سے زنگ اُتر جاتا ہے تو یہ اسمِ ربانی کے انوارات سے روشن ہو جاتا ہے۔۔ جب قلب و روح اتنے منور اور پاکیزہ ہوجاتے ہیں تو بندے کو اس نور میں کئی ایسی چیزیں نظر آ سکتی ہیں جو جسم کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔۔ اس قلبی نگاہ کے کھلنے کو کشف کہتے ہیں۔۔ یعنی منکشف ہونا، Disclose ہونا۔۔ اس حِس کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ مشاہداتی علم کہلاتا ہے۔۔ اس میں دنیا کی اشیاء کی حقیقت بھی دکھائی دے سکتی ہے اور عالمِ غیبیہ کی اشیاء کی بھی۔۔ اسمیں شیطان گڑبڑ کر سکتا ہے اور اپنی طرف سے کچھ روشنیاں وغیرہ دکھا کر بات کو غلط interpret کرا سکتا ہے۔۔ اسلئے کشف غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔۔ اسے پرکھنے کی کسوٹی یہ ہے کہ کشف میں کہی یا بتائی یا دکھائی جانے والی شے یا بات اگر شریعتِ نبویﷺ کے متصادم یا خلاف ہے، یا شرعی احکام کے علاوہ کوئی حکم ہے، تو کشف باطل ہے۔۔!
۔
اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو آگے پوچھا جاتا ہے کہ" کشف ہونے کی شرعی دلیل کیا ہے؟"
ساتھ ہی معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی کا مفہوم ہے: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔" (مسند احمد)
پھر معترضین کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ: وحی، الہام، القا، کشف سب ختم ہو گیا، کیونکہ یہی تو نبوت کے کمالات ہیں۔۔!
یہ ایک انتہائی عجیب و غریب بات ہے کیوں کہ وحی کے ساتھ بار بار الہام اور کشف و القاء کو جوڑنا اور ان سب کو نبوت کا جزو قرار دینا ان کے اصطلاحی معنوں سے ناواقف ہونے کی علامت ہے۔۔ انکی تفصیل جاننے کا کسی کو شوق ہو تو وہ میرے بلاگ کا مطالعہ کرلے۔!
بہرحال! بخاری، مسلم اور ترمذی کی حدیث میں حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کا قول مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا : "میں جبل احد کے پیچھے سے جنت کی خوشبو پاتا ہوں۔"
اسی طرح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے غزوہ احد کے دن رسول اللہ ﷺ کے داہنے بائیں دو شخص دیکھے جن پر سفید کپڑے تھے اور بہت سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں نے ان کو نہ اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں دیکھا۔ یعنی وہ دونوں شخص جبرئیلؑ و میکائیلؑ تھے۔ (بخاری و مسلم)
یہاں سے غیرنبی پر علومِ غیبیہ کا منکشف ہونا ثابت ہوتا ہے۔
صحابہ اور اولیاء دراصل انبیاء کے روحانی وارث ہوتے ہیں۔۔ جب نبی کو غیبی چیزیں (جیسے حضرت ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمینوں کی مخفی چیزیں، اور جیسے حضرت یعقوبؑ کو بیٹے کی قمیص کی خوشبو آنا وغیرہ) دکھا دینے پر اللہ قادر تھا تو اُمتی کو بطفیل اتباعِ نبی کچھ دکھانے دینے پر اللہ اب قادر نہیں رہا؟ کیا اللہ نے کوئی ایسی آیت نازل کی ہے جس میں بتایا ہو کہ امتی کے قلبی مشاہدات پہ پابندی لگ چکی ہے؟ قرآن میں بوقتِ نزع انسان کا فرشتوں سے مکالمہ کرنا ذکر ہوا ہے۔۔ اگر تب فرشتے نظر آ سکتے ہیں تو اللہ کسی کی تالیفِ قلب کیلئے اسے آج فرشتے نہیں دِکھا سکتا؟
۔
اگر یہ بات سمجھ آ جائے تو اگلا اعتراض ہوتا ہے کہ جو کچھ صوفیاء کو دکھائی دیتا ہے وہ محض انکی ذہنی اختراع اور دھوکا ہوتا ہے۔۔ یہ بس Meditation اور ذہنی ارتکاز کی کسی مشق کی طرح کا کام ہے۔۔!
بھئی آپکو کیسے پتہ کہ صوفیاء کو کیا دکھائی دیتا ہے اور کیسے دکھائی دیتا ہے؟ کیا آپ نے تصوف کو آزمایا ہے؟ اگر نہیں آزمایا تو اِدھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں پہ ایمان بالغیب کیوں لے آئے ہو؟
۔
پھر کہتے ہیں کہ جی یہ بس تخیل کے کمالات ہیں، ہوتا کچھ بھی نہیں۔۔!
اچھا تو کیا محض تخیل سے انسان کے عقائد درست ہو سکتے ہیں؟ کیا محض تصور کر لینے سے سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق کردار کی اصلاح ہو جاتی ہے؟ اگر نہیں، تو یاد رکھیں، ایک حقیقی صوفی کے عقائد سے لیکر اعمال اور افکار سے لیکر کردار تک شریعت کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔۔ کیا اپنے ذہن کی خودساختہ سیر کر لینے سے یہ مقام نصیب ہو سکتا ہے؟
بات یہ ہے کہ آپ کو اپنے زُعمِ علم کے زور پر دوسروں پر صرف الزامات لگانے آتے ہیں اور صرف خود کو سچا باور کرانا آتا ہے۔۔ محقق صاحب! آپ اُس نابینا شخص کو اپنے دلائل سے کیسے قائل کریں گے جو کہے کہ مجھے چاند اور ستاروں کے ہونے کی علمی اور عقلی دلیل دو؟ بعینہ ہم بھی آپکو علمی اور عقلی دلیل سے قائل نہیں کر سکتے۔۔ ہاں البتہ ذوقی دلیل چاہئے تو ست بسم اللہ۔۔ آئیے، بیٹھئے، وقت لگائیے، محنت کیجئے تو خودی سمجھ آ جائیگی۔۔ لیکن شاید یہ آپکے بس کی بات نہیں۔۔ آپ اپنی کتابی تحقیقات جاری رکھئے۔۔!
جاتے ہوئے ایک توضیح کرتا جاؤں۔۔!
نبی کا کشف اور خواب دونوں حق ہوتے ہیں، اور امتیوں کیلئے ان پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔۔ ولی کا کشف اسکی اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے، دوسروں پر دھونس جمانے کیلئے نہیں ہوتا۔۔ کشف سے بھی مضبوط تر ایک چیز ہوتی ہے جسے "وجدان" کہتے ہیں۔۔ اسکی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظر تو کچھ نہیں آتا لیکن انتہائی قسم کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، بات دل میں جما اور بٹھا دی جاتی ہے اللہ کریم کی طرف سے۔۔ اس میں شیطان مداخلت نہیں کر سکتا۔۔!
کشف کا ہونا یا نہ ہونا بندے کے اختیار میں نہیں ہوتا۔۔ یہ خالص خدائی تحفہ ہے۔۔ محض اسکے حصول کیلئے اگر کوئی جدوجہد کرتا ہے تو ہم اسے شرک فی التصوف سمجھتے ہیں کہ اللہ کی ذات کی بجائے غیراللہ کی طلب میں مجاہدہ کیا جائے۔۔!!
۔
تحریر: محمد نعمان بخاری