Tuesday, July 28, 2015

قادیانیت، غامدیت اور تصوف (از: فرنود عالم)

4 comments
’’قادیانیت ، غامدی صیب اور میرا تجزیہ‘‘
آ پ اپنے جملے کی ترکیب کو الٹ دیں۔ اور یہ آپ کو الٹنا ہی پڑے گی۔ کیوں۔؟ میں بتاتا ہوں
آپ نے کہا
’’غامدی صیب کا مدعا یہ ہے کہ چونکہ ابنِ عربی کو آپ چھوٹ دیتے ہیں لہذا غلام احمد قادیانی کو بھی چھوٹ دی جانی چاہیئے‘‘
میں کہتا ہوں
’’غامدی صیب کا مدعا یہ ہے کہ چونکہ غلام احمد قادیانی کیلئے کوئی چھوٹ نہیں ہے، لہذا ابنِ عربی کو بھی چھوٹ نہیں دی جانی چاہیئے‘‘
اب سنیں۔۔!!
جملے کی جو ترکیب آپ نے کی، اس کی تائید میں آپ صرف اپنے جذبات پیش کر رہے ہیں۔ اور آپ کے جذبات قابلِ رشک ہیں۔ جملے کی جو ترکیب میں نے باندھی ہے اس کی تائید میں غامدی صیب کا پورا لٹریچر بکھرا پڑا ہے۔
وہ کیا۔؟
وہ یہ کہ ۔۔!!!
’’جاوید احمد غامدی صیب کوئی بھی لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک اور بے غبار الفاظ میں تصوف کو شریعت کا متوازی ادارہ سمجھتے ہیں‘‘
بے محل نہیں ہوگا کہ اگر ایک بات برسبیلِ تذکرہ ہی سن لیں
آپ جانتے ہیں۔۔!!!
جاوید صیب کے والد گرامی ایک سکہ بند صوفی تھے۔ یہی وجہ رہی کہ جاوید صیب اول تصوف کی راہ پہ چلے اور جی جان سے چلے۔ تصوف کو پڑھا ہی نہیں، بلکہ تصوف ان پہ بیتا بھی ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بر صغیر میں تصوف پہ اور خاص طور سے وحدت الوجود کے مسئلے پہ سب سے مستند کتاب ’’عبقات‘‘ کو مانا گیا ہے۔ جاوید صیب شاہ اسما عیل شہید کی کتاب عبقات کے باقاعدہ استاد رہ چکے ہیں۔ اس کتاب سے متعلق میرا دعوی یہ ہے کہ درس نظامی کے اکثر فضلا اس کو حل کرنے کی دسترس نہیں رکھتے۔
آمدم بر سرِ مطلب۔۔!!!
تصوف سے اس قدر گہری وابستگی رکھنے والا شخص ایک دن اس نتیجے پہ پہنچا کہ تصوف کا ادارہ اپنے بنیادی اصولوں کے ساتھ سراسر شریعت کے متصادم ادارہ ہے۔ اب یہ سوال آپ جاوید صیب کی جناب میں لیکر جائیں گے، کہ صاحب آپ نے ایسی بات کیوں کہی۔؟ ظاہر ہے اس کا جواب جاوید صیب ہی دے سکتے ہیں نا؟ اب جو جواب وہاں سے ملے گا وہ کروڑوں الفاظ اور لاکھوں جملوں پہ مشتمل ہے، میں اسے سمیٹتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ۔۔!!!
آپ تصوف کے ادارے میں کھڑے ہوکر خدا تک رسائی کے تین مدارج بیان کرتے ہیں۔ تیسرے درجے کے بعد آپ وحدت الوجود میں سما جا تے ہیں۔ یہاں سے آگے آپ کی روحانیت اس قدر ایکٹیویٹ ہو جاتی ہے کہ آپ براہ راست اسی مقام سے علم کشید کرتے ہیں، جہاں سے انبیا کو علم ملا کرتا تھا۔ اسی زعم میں ابنِ عربی نے ایک دن ایک بات کہی تھی
وہ کیا۔؟
وہ یہ کہ ۔۔!!!
’’اے انبیا و رُسل! تمہیں تو نبی ہونے کا صرف نام ملا، جو چیز ہمیں ملی ہے اس کی تو تمہیں ہوا بھی نہیں لگی‘‘
اب بات کیا ہے۔؟؟
بات یہ ہے کہ جاوید صیب کتابی علم سے ما وری ان تمام اصولوں کو بشمول ابن عربی جیسے صوفیا کے اقوال کے مسترد کرتے ہیں۔ جب مسترد کرتے ہیں، تو باری آتی ہے آپ کے بولنے کی۔ جونہی آپ کی باری آتی ہے، تو آپ ابن عربی اور تصوف کے تمام آئمہ کی اس سے بھی شدید اقوال کی تاویل کرتے ہیں۔ کر لی تاویل ۔؟ اب جاوید صیب آپ سے سوال گزار ہیں
کہ۔۔!!
’’ابن عربی اور دیگر صوفیا کو آپ کس اصول کی بنیاد پہ تاویل کا را ستہ دے رہے ہیں، جبکہ رسالت مآب ﷺ کی ذات والا صفات ہی وہ ہستی ہے جو دین میں کسی کمی و بیشی کا اختیار رکھتی ہے’’
پھر ایک بات اور۔!!!
’’جب آپ شریعت سے متصادم صوفیا کے اقوال کو تاویل کا جیک فراہم کر رہے ہیں، تو یہی جیک مرزا غلام احمد قادیانی کو کیوں فراہم نہیں کر دیتے’’
پھر اس پہ مزید ایک بات اور۔۔!!
’’جب مرزا غلام احمد قادیانی سے تاویل کا حق مکمل طور پہ چھین لیا گیا، تو کم و بیش وہی بات کہنے والے صوفیا سے وہی حق چھین کیوں نہیں لیتے‘‘
بات اصل میں ہے کیا۔؟؟
’’بات در اصل یہ ہے کہ نبوت کے اکثر دعوے تصوف کے سیکٹر سے وارد ہوئے۔ سوچنے کی بات ہے کہ تصوف کے ہی سیکٹر سے یہ دعوے وارد کیوں ہوتے ہیں۔؟ اس کی وجہ ہے کشف و الہام کے بیچ کی وہ کائنات، جو روحانی عیاشیوں سے مرحلہ وار جنم لیتی ہے‘‘
نہیں سمجھے۔؟؟؟
اک ذرا صبر۔ توجہ مرکوز رکھیئے، میں بات سمیٹ رہا ہوں
میں کہتا ہوں۔!!
’’وہی بات جو مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کے دعوے کے ساتھ کہی ، کم وبیش وہی بات اکثر صوفیا نے بغیر دعوے کی کہہ دی۔ تو اب کیا کیجیئے گا جناب۔ آپ چھوٹ دیدیں، میں بھی دیدیتا ہوں، تو کیا غامدی صیب بھی دیدیں۔؟ ان سے اصرار کیوں۔؟ نیت پہ شک ہی کیوں؟ بات کرو تو آپ کہتے ہیں، ہم چار گھنٹے کا لیکچر کیوں سنیں۔ یہ مکالمے کی کون سی قسم ہے بائے دی وے‘‘
کیا برا ہو، اگر برسبیل تذکرہ ایک بات اور سن لیں
کیا مرزا غلام احمد قادیانی ایک متبحر عالم دین نہیں تھے۔؟ 
کیا وہ ایک مستند صوفی نہیں تھے۔؟
اگر نہیں، تو پھر علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور علامہ اقبال ؒ کا پہلے پہل مرزا قادیانی سے متاثر ہونا چہ معنی دارد۔؟ 
جب آپ غلام احمد قادیانی کو ایک صوفی مان لیں گے تو آپ بات سننے کے روادار ہوجائیں گے۔ جب روادار ہوجائیں گے، تو میں آپ کے ہاتھ میں تصوف کا اوریجنل ٹیکسٹ تھما دوں گا۔ جب آپ پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے، تو پھر میں آp سے ایک ایک بات کہوں گا جو پوری ہونے سے بھی پہلے آپ کو سوچنے پہ مجبور کر دے گی۔ کون سی بات؟
وہ یہ !!!
غامدی صیب کہتے ہیں، کہ تصوف کے مدارج کی منہ زور لہریں ہی تھیں ، جو مرزا غلام احمد قادیانی کو بے رحمی سے بہا کر لے گئیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو نبوت و مہدیت کے دعوے کے بغیر تصوف کی کائنات میں ہمیشہ سے نکلتا آرہا ہے۔ آخر منصور حلاج نے بھی تو انالحق کا نعرہ لگایا اور زمین سے اٹھ کر سیدھا عرش معلی پہ خدا کی کرسی کے ساتھ اپنی کرسی لگا کر بیٹھ گئے تھے۔؟ میں پوچھوں گا کہ وہ سب کیا تھا۔؟ اب اس کے جواب میں آپ چار گھنٹے کی تاویل کریں گے۔ پھر مجھ سے اصرار کریں گے کہ میرے چار گھنٹے کی بات سنو تو بات سمجھ آئے گی، ورنہ تصوف کو سمجھنا تم جیسے مادہ پرست لوگوں کے بس کا روگ نہیں۔
حرفِ آخر۔۔!!!
ختم نبوت کے باب میں جس قدر شدت کے ساتھ نقطہ نظر غامدی صیب نے اختیار کیا، وہ اب تک کوئی اختیار نہیں کر سکا ہے۔
وہ کیسے۔؟
وہ ایسے کہ ۔!!
’’نبوت کے سیکٹر پہ شب خون مارنے کیلئے تمام تر فتووں اور رکا وٹوں کے باوجود ایک چور دروازہ اور چور کھڑکی رہ جاتی ہے۔ چوردر وازہ ’’ا لہام’’ ہے اور چور کھڑکی ’’کشف’’ ہے۔‘‘
اب سنیں۔۔!!!
’’ختم نبوت اور خاص طور سے قادیانیت کے ہی باب میں غامدی صیب کہتے ہیں کہ نبوت کے معاملے میں خدا کی کتاب انتہائی واضح اور انتہائی صریح ہے۔ جب قرآن نے نبی کو انبیا کی مہر قرار دے دیا تو میں کسی کے دعوائے نبوت کو ادنی درجے میں بھی کیسے تسلیم کر سکتا ہوں۔ میں تو روایتی مقدمے سے ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ اب زمین کا آسمان سے رابطے کیلئے کشف و الہام کا دروازہ بھی بند ہو چکا ہے۔ ‘‘
سوال۔۔!!!
’’کوئی ہے جو کوچہ رسالت کے تحفظ کیلئے اس آخری دروازے کو بھی سر بمہر کر سکے؟ کوئی ہے، تو ہاتھ اٹھائے‘‘
مجھے ایک بات بتائیں۔!!
’’جو کشف والہام جیسے کھڑ کی دروازے کو بھی بند کرنے پہ مصر ہے، آپ اس سے ایمان کی تصدیق چاہتے ہیں؟‘‘
آخری تجزیئے میں۔۔!!!
جاوید صیب کا مکالماتی اسلوب ہی کا نتیجہ ہے کہ، قادیانی پیروکار ہی نہیں بلکہ قادیانی مبلغین ، پروفیسرز اور پائے کے دانشور دبے قدموں اپنی راہ پہ واپس لوٹ آئے۔ میرے ایک سابق احمدی دوست، جو بہت عالم فاضل ہیں میرے پاس ایڈ ہیں (اجازات دیں تو نام افشاں کروں)، وہ کچھ برس قبل احمدیت کی بنیاد سمجھانے جاوید صیب کی جناب میں پہنچے۔ کچھ دن کے مکالمے کے نتیجے میں وہ اپنی احمدیت جاوید صیب کی جوتیوں میں چھوڑ کر چلے گئے۔ احمدیوں کی نمائندہ ویب سائٹ کا ایک وزٹ کیجیئے، اور وہاں دیکھیئے کہ غامدی صیب سے بڑھ کر بھی کیا وہ کسی کا تعاقب کر رہے ہیں۔؟
تو یوں ہے کہ۔!!
آپ انگشت بدنداں ہیں کہ جاوید صیب نے مرزا کو کافر کیوں نہیں کہا۔ اس کا جواب بھی ایک سوال میں پنہاں ہے۔
’’کیا جاوید صیب نے اہلِ تصوف کو کافر کہا‘‘
نہیں نا۔؟؟
تو پھر اہلِ تصوف جاوید صیب پہ کیوں خار کھائے بیٹھے ہیں۔؟ اسی لیئے قادیانی سیکٹر بھی انہی پہ خار کھائے بیٹھاہے۔۔ ایسا نہیں ہے؟
منیر نیازی نے کہا تھا
خیال جس کا تھا مجھےخیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے
بس اپنے ہی سوالوں پہ ایک نگاہ کر لیجیئے۔۔!! دلی دور ہو سکتا ہے، جواب دور نہیں ہے۔ 
جو درست سمجھا، وہ کہہ دیا۔ حرف آکر کچھ نہیں۔ غلطی کا احتمال باقی۔ رہے بس نام خدا کا۔
(فرنود عالم)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب 1: 
مرزا قادیان کے دعوؤں کی بنیادیں صوفیاء کے کلام میں تلاش کرنے کا رجحان برصغیر میں علامہ اقبال (رح) کے یہاں تفصیل سے ملتا ہے۔ اقبال نے ابن عربی و مرزا قادیان کے عین اسی موازنے کو اٹھا کر اسکا جواب بھی دیا ہے جسے آج فیس بک پر گویا "کسی نئی تحقیق" کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اقبال کے اٹھائے گئے سوال کو تو لے لیا گیا مگر اس کے جواب سے سہو نظر کرلیا گیا۔ چنانچہ اقبال (رح) شیخ ابن عربی (رح) و مرزا قادیان کے فرق کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"صوفی محی الدین ابن عربی کی سند پر مزید دعوی کیا جاتا ھے کہ ایک مسلمان ولی کےلیے اپنے روحانی ارتقاء کے دوران اسطرح کا تجربہ حاصل کرنا ممکن ھے جو شعور نبوت سے مختص ھے. میرا ﺫاتی خیال ھے کہ شیخ کا یہ خیال نفسیاتی نقطہ نظر سے درست نھیں لیکن اگر اسکو صحیح فرض بھی کر لیا جائے تو تب بھی قادیانی استدلال شیخ کےموقف کی غلط فھمی پر مبنی ھے۔ شیخ ایسے تجربے کو ذاتی کمال تصور کرتے ھیں جس کی بنا پر کوئی ولی یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ جو شخص اس پر اعتقاد نھیں رکھتا دائرہ اسلام سے خارج ھے. اس میں شک نہیں کہ شیخ کے نقطہ نظر سے ایک ھی زمانہ اور ملک میں ایک سے ذیادہ اولیاء موجود ہوسکتے ھیں. غور طلب امر یہ ہے کہ نفسیاتی نقطہ نظر سے ایک ولی کا شعور نبوت تک پہنچ جانا اگرچہ ممکن ہو، تاھم اسکا تجربہ سیاسی و اجتماعی حیثیت نھیں رکھتا، اور نہ ہی کسی نئی تنظیم کا مرکز بناتا ھے اور نہ ہی یہ استحقاق عطا کرتا ہے کہ وہ اس نئی تنظیم کو پیروان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان یا کفر کا معیار قرار دے۔ 
اس صوفیانہ نفسیات سے قطع نظر فتوحات کی متعلقہ عبارتوں کو پڑھنے کے بعد میرا یہ اعتقاد ھے کہ ہسپانیہ کا یہ عظیم الشان صوفی ختم نبوت پر اسی طرح مستحکم ایمان رکھتا تھا جس طرح ایک راسخ العقیدہ مسلمان رکھ سکتا ہے. اگر شیخ کو اپنے صوفیانہ کشف میں نظر آجاتا کہ ایک روز مشرق میں چند ہندوستانی جنہیں تصوف کا شوق ہے، شیخ کی صوفیانہ نفسیات کی آڑ میں پیغمبر اسلام ﷺ کی ختم نبوت کا انکار کر دیں گے تو یقینا علمائے ہند سے پہلے مسلمانانِ عالم کو خبردار کر دیتے"
اس پورے مضمون کا مطالعہ از حد ضروری ہے یہ سمجھنے کے لیے کہ صوفیانہ تجربات اور مرزا قادیانی کے دعوے میں کیا فرق ہے. اس سے بھی اہم کہ اگر احمدیت پر اس پہلو سے نقد کرنا ھے تو اسکا درست طریقہ کیا ھے. درست طریقہ یقینا یہ نھیں کہ نکلے تو تھے احمدیت پر نقد کرنے اور پوری تصوف کی عمارت اور ابن عربی کی شخصیت کو ڈھانے کے ساتھ ساتھ مرزا صاحب کے دعوی نبوت پر بھی شکوک اٹھانے لگے.
(از: احمد علی کاظمی)

جواب 2: 
اگر صوفیاء کے کلام سے "نبیوں کا جنم لینا" ایسا ہی آسان ہوتا جیسا ہمارے یہ بھائی ہمیں سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں تو پچھلے ایک ہزار سال میں ہندوستان سے قادریوں، سہروردیوں، چشتیوں اور نقشبندیوں کے ایک نہیں بلکہ کئی ایک نبی برآمد ہوئے ہوتے اور وہ انہیں قادیان کی طرح اپنا نبی کہتے پھر رہے ہوتے، کیونکہ از روئے مفروضہ مخالف، صوفیوں کے ماننے والے تو جاہل و اندہی عقیدت کے مارے ہوتے ہیں۔ تو ان سلسلوں اور انکے "جاہل عقیدت مندوں" میں ایسے نبیوں کا ظہور کیوں نہ ہوا؟
بتایا جارہا ہے کہ جو اپروچ مرزا قادیان کو نبوت کی طرف لے جانے کا باعث بنی وہ صوفیانہ تھی۔ اسی اصول پر ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جس اپروچ نے امت کے سب سے پہلے فتنے خوارج کو جنم دیا وہ "توحید کا بخار" تھا، وہ بھی عین قرآنی آیت پر مبنی۔ اب نتیجہ ایک جیسا نکالنا بھائیو۔
اگر ابن عربی و صوفیاء کا کلام بھی ویسا ہی ہوتا جیسا مزرا قادیان کا تو تاریخ میں ابن عربی کو بھی کسی معنی میں "نبی" ماننے والوں کا کچھ سراغ ملنا چاہئے تھا، انہیں شیخ اکبر ماننے والے کچھ نہ کچھ جیالے "غیر تشریعی نبی" ضرور کہتے مل جاتے۔ یہی وہ فرق ہے جو ہمارے یہ عزیز سمجھ نہیں پائے۔ قادیان کا مسئلہ ابن عربی و دیگر کی طرح نہیں، ابن عربی کو نبی کہنے اور سمجھنے والا کوئی پیدا نہیں ہوا، ابن عربی کے یھاں ولایت و نبوت کے مابین تعلق کے حوالے سے بس ایک "عمومی کلام" ہے، نہ "اپنی نبوت" کے حق میں دلائل اور نہ ہی کسی امت کی تعمیر کی دعوت۔ دوسری طرف "اپنی نبوت" کے دلائل و دعووں کا انبار ہے، اسکے مخالفین پر حکم کفر کا اجراء ہے، ان دعووں کو جوں کا توں ماننے والوں کی ایک فوج ہے۔ ان دونوں صورت حال کو ایک دوسرے پر کیسے قیاس کرلیا جائے؟ یہ قیاس نہیں سادہ لوحی ہوسکتی ہے۔
(از: زاہد مغل)

جواب 3: 
بات کو خوب گڈمڈ کیا۔۔ زبردست۔۔ میں غامدی صاحب کو تصوف کی فیلڈ میں انتہائی ناسمجھ مانتا ہوں۔۔ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں اسلئے فی الوقت دومنٹ کیلئے تصوف کی تفصیلی بحث اور قادیانیت دونوں کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں اور صرف ان جملوں کے متعلق اپنی رائے دیں:
1۔ کنجریوں کی اولادوں کے سواء سب میری دعوت کی تصدیق کرتے اور مجھے (نبی) مانتے ہیں۔ (آئینہء کمالات) -- ایسا قول صوفیاء سے ثابت کرسکتے ہیں؟
2۔ میں وہ آئینہ ہوں جس میں محمدی شکل اور محمدی نبوت کا کامل انعکاس ہے۔ (نزول المسیح، حاشیہ) -- کیا کہیں گے؟
3۔ دشمن ہمارے بیانوں کے خنزیر ہوگئے اور انکی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں" (نجم الہدی) -- اور سناؤ۔۔
4۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس طرح میں قرآن کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ھوں اسی طرح اس کلام کو جو میرے اوپر نازل ہوا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں" (حقیقۃ الوحی) -- ہے کوئی تُک؟
5۔ مجھے اپنی وحی پر ویسا ہی یقین ہے جیسا تورات، انجیل اور قرآن پر (اربعین 4)-- چھڈو دادا جی۔۔
6۔ اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا، باقی کوئی اسکا مستحق نہیں" (حقیقۃ الوحی) -- اسے بھی صوفیاء کے کھاتے میں ڈال دیں پلیز۔۔
7۔ سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلا) -- کمال نئیں ہو گیا۔۔
8۔ قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا ای مرسل من اللہ۔۔۔ "اور کہہ دو کہ اے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں۔۔" (اشتہار معیار الاخیار ص 3 مجموعہ اشتہارات ج3 ص 270) -- بس یہی کمی رہ گئی تھی۔۔
شاید علامہ غامدی صاحب کی عقابی نگاہ سے یہ "تصوفاتی" اقوال اوجھل رہے ہوں۔۔ رابطہ کیجئے گا موصوف سے۔۔ اجازت چاہوں گا۔ :)
(از: محمد نعمان بخاری)

4 comments:

  • July 30, 2015 at 3:35 AM

    شاندار اور مسکت جوابات
    یه یونس کو کیا هوا هے جو غامدیوں کی کاسه لیسی کررها هے?
    اس کے والد تو حق گو عالم تھے
    اور بھائی بھی اسیران افغانستان.
    الله عافیت والی ھدایت سے نوازے

  • June 10, 2020 at 3:17 AM

    غامدی صاحب نے کب اور کہاں کہا کہچونکہ ابنِ عربی کو آپ چھوٹ دیتے ہیں لہذا غلام احمد قادیانی کو بھی چھوٹ دی جانی چاہیئے‘‘
    حوالہ دیں بصورت دیگر یہ بہتان ہے

  • October 14, 2021 at 8:48 PM

    مرزا اپنے دعوی کی بنیاد قرآن وحدیث پر نہ رکھ سکا جبکہ کشف و الہام کی صوفیانہ اصطلات اس کا سہارا بنیں ‐ابن عربی کی تعیلمات کی منطقی نتیجہ ہے ‐ہر بندہ نبوت کا دعوی اس لئے نہیں کرتا کیونکہ ایسا کروانے میں ابلیس اور بہت سے عوامل اور حالات دیکھتا ہے ‐انگریز کی چھتری نہ ہوتی تو اسکا کبھی بالغ نہیں ہوتا

  • July 24, 2024 at 8:08 AM

    غامدی صاحب نے کسی کو جھوٹ نہیں دی بلکہ انہوں نے ان دلائل کا ذکر کیا ہے جو ابن عربی پیش کرتا ہے اور جو اس طرح کے دوسرے لوگ پیش کرتے ہیں۔ ابن عربی اپنے اپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بنا کر پیش کرتا ہے بقول کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت میں سب سے بڑے ہیں اور ابن عربی میں سب سے بڑا ہے۔
    یہ کہا ہے غامدی صاحب نے۔۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔