Tuesday, July 7, 2015

صلائے عام ہے (تحریر: مولانا محمد اکرم اعوان نور اللہ مرقدہ - شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ)

0 comments
زندگی کا ٹیڑھا میڑھا راستہ پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ نشیب و فراز سے پُر اور سینکڑوں خطرناک موڑوں والا راستہ۔۔ اللہ! کتنا تھکا دینے والا راستہ تھا،، مگر حیرت ہے کہ ہم کیسے گزر گئے؟ کتنے دوستوں نے، کتنے عزیزوں نے ہمارے ساتھ سفرِ حیات اختیار کیا، مگر اب وہ ہمارے اردگرد نہیں ہیں،، راستے کے پیچ و خم میں کھو گئے۔۔ یہ جانے والے کیا ہوئے؟ کتنے پیارے، کتنے محبوب تھے ہمیں۔۔ اب اُن کی مٹی کیوں ہماری آہٹ کو ترس گئی ہے؟ ان کی قبریں ہماری بے رُخی پر خاک بسر کیوں ہیں؟ آخر کیوں؟؟۔۔ کبھی سوچا آپ نے۔۔!! یہ موت،، یہ بیچارگی کی موت،، یہ بے کسی کی موت،، اللہ کریم ایسی موت سے پناہ میں رکھے، آمین۔۔ میں یہ موت نہیں مرنا چاہتا،، اسی لئے تو آپ کو آواز دے رہا ہوں۔۔ میرے پاس ایک دولت ہے،، ایک نعمت ہے،، بہت ہی کم یاب،، اگر نایاب کہہ لو تو بھی حرج نہیں۔۔ ایک ایسی دولت جو قابلِ انتقال ہے اور نا قابلِ فراموش ہے۔۔!
میں نے ایک سورج کو سرِ مقتل پایا تھا۔۔ اسکی گرمی،، اس کا رقصِ بسمل اسی راہ پر، ہاں یقیناً اسی راستے پر جس کی تاریکی اور سخت موڑوں نے ہجومِ خلق کو تھکا دیا ہے۔۔ راہِ حیات کی ایک طویل مسافت،، رُبع صدی کا یہ سارا راستہ اُن کی گردِ پا میں کٹا۔۔ کمال ہے،، گرد میں تو اندھیرا ہوتا ہے،، دھندلا پن ہوتا ہے،، مگر یہ تو روشن روشن تھی۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی اور میٹھی میٹھی روشنی۔۔ راستہ روشن،، آنکھیں روشن،، دل روشن اور ماحول روشن۔۔ ایک کسک،، ایک میٹھا میٹھا درد لئے ہوئے،، ایک سوز اور تپش جس میں جلنا مزہ دے رہا ہے۔۔ ایک ایسا منبعِ انوار جس نے روشنی اور گرمی ہی نہیں دی،، سوزِ عشق بانٹا ہے،، محبت لُٹائی ہے اور جذبوں کے دریا بہا دئیے۔۔ حسین اور قیمتی جذبے۔۔!
میں بھی ایک ڈھیر تھا مٹی کا۔۔ سرِراہ پڑا تھا۔۔ مرورِ زمانہ کا روندا ہوا،، کچلا ہوا۔۔۔۔ کہ ایک مسافر کا گزر ہوا۔۔ اس کا پاؤں مجھ پر پڑا اور پھر۔۔۔۔۔۔ چھوٹ نہ سکا۔۔ ایک لذت،، ایک رنگ،، ایک حُسن تھا جو اس کے پاؤں کی گَرد بننے میں ملا،، اور ہم اسی راہ کا غبار ہو گئے۔۔!
آنے والو! ہم تو جانے کی تیاری میں ہیں۔۔ اگر فرصت پاؤ تو آؤ تمہیں بھی سرِمقتل لئے چلیں۔۔ قتلِ خورشید کا نظارہ کرلو۔۔ تمہیں ڈھنگ سکھا دیں تو اس کی کرنیں سمیٹ لو۔۔ میٹھا میٹھا درد،، خوبصورت سی کسک اور ایک پُر لطف بے چینی نہ دے دوں تمہیں؟؟ کہ یہ امانت ہے میرے پاس۔۔ موت کی تاریکی مجھے نگل نہ سکے گی ان شاء اللہ۔۔ اسی راستے میں روشنی کی ایک لکیر سہی،، مگر رہیں گے ضرور تا اَبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
رُبع صدی تو میں نے خورشید کی تپش جھیلی،، تب جا کر ایک چراغ سا بنا۔۔ پتہ نہیں تم کچھ بن بھی پاؤ گے یا نہیں۔۔!
آؤ۔۔!! تمہارے دل میں چراغاں کردوں۔۔ تمہارے دل میں جلوس نکلیں، جذبوں کے،، محبتوں کے،، عشق کے۔۔ چھوڑو یار نقل کو چھوڑو۔۔ آؤ،، سچ مچ کی روشنیاں جلائیں اور اُس منبعِ انوار کی طرف بڑھیں، جہاں سے سورج کا ایک جہان طلوع ہوتا ہے۔۔!!
(تحریر: مولانا محمد اکرم اعوانؒ - شیخ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔