Saturday, April 26, 2025

کیا ولایت نبوت سے افضل ہے؟

کسی پیغمبر کی پیغمبریت کی دو بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔۔ 1- خالق سے احکامات لینا۔۔ 2- مخلوق تک پہنچانا
مقامِ پیغمبریت کو ابنِ عربیؒ نے دو ٹرمز دی ہیں۔۔پہلی جہت کو لفظ 'ولایت' اوردوسری کو 'نبوت' سے تعبیر کیا ہے۔۔
ایک عبارت کے معنی کی وہی تعیین درست ہوتی ہے جو خود متکلم کی اپنی اصطلاحات میں بیان کی جائے،، نہ یہ کہ اس میں استعمال کئے گئے الفاظ کو کسی دوسرے معنی کا لبادہ پہنا دیا جائے۔۔ چنانچہ ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں:
پیغمبر کی دو جہات یا حیثیتیں ہیں: 
- ایک وہ جسکا تعلق "بطور عارف" خدا اور اسکی اسماء و صفات میں تدبر سے ہے۔ 
- دوسرا وہ جسکا تعلق "بطور شارع" بندوں کی اصلاح و تزکیہ اور تہذیب تمدن سے ہے۔
اس پورے مضمون کو سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو یہاں مقامِ پیغمبریت ڈسکس ہو رہا ہے۔۔چنانچہ انکے خیال میں پیغمبر کی حیثیت بطور 'ولی' برتر ہے اس حیثیت سے جو بطور 'نبی' ہے۔۔ یعنی'' نبی کی ولایت نبی کی نبوت سے افضل ہے''۔۔
غور کیجئے کہ یہاں ابنِ عربیؒ ولایت کو پیغمبریت کا ہی ایک پہلو قرار دیتے ہیں،، اسکا متضاد یا مدمقابل نہیں۔۔
بس اتنی سی بات ہے جس کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے۔۔ ہاں اگر کوئی شخص یوں کہے کہ نعوذ باللہ 'ولی نبی سے افضل ہے' تو ظاہر ہے اسے کوئی مسلمان کسی صورت قبول کرنے کا روادار نہیں ہے۔۔!
میرا ماننا ہے کہ ہر پیغمبر ہر لمحے ولی بھی ہے اور نبی بھی۔۔ اور پیغمبر کی اس کیفیت کو جو خالق سے رابطے کے دوران ہے،، فوقیت/فضیلت حاصل ہے اس کیفیت سے ، جو کہ مخلوق سے رابطے کے دوران ہے۔۔!
تو دوستو،، یہ ابنِ عربیؒ کا نظریہ تھا،، جس سے یقیناً علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔۔ اور یہ کہ آخر انہیں کیا ضرورت پڑی ایسی اصطلاحات استعمال کرنے کی ، اور ایسا اسلوب و انداز بیان اختیار کرنے کی، کہ جو ہم عوام کی سمجھ سے بالا ہے۔۔ لیکن کسی بات کو سمجھے بنا کسی پر الزامات کی بوچھاڑ کرنا ہمیں زیبا نہیں۔۔ ایک صوفی کی کیفیت/محسوسات دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ صوفیاء کو اپنے مشاہدات کی تشہیر نہیں کرنی چاہئے ورنہ وہی ہوتا ہے جو ایک جنگ کی صورت میں فیس بک پربرپا ہے۔۔ اللہ کریم عافیت نصیب فرمائیں۔۔آمین!!
(خیر اندیش : محمد نعمان بخاری)

"ولایت کا درجہ نبوت سے بالاتر ھے"، "غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے" (ابنِ عربیؒ)

لیجئے ابن عربی والی پوسٹ بھی مل گئی۔ اسے پڑھ کر بتائیں کہ کیا اعتراض ھے۔
"ولایت کا درجہ نبوت سے بالاتر ھے"، "غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے"۔۔۔۔۔۔۔ ابن عربی کے بعض کلامی اقوال کے اصل معنی اور غلط فھمیوں کا ازالہ
تصوف کے بعض غالی مخالفین صوفیاء کے بیان کردہ چند کلامی عقائد و مسائل کی آڑ میں تصوف کو عظیم ترین گمراھی تک قرار دیتے ھیں۔ اس میں شک نھیں کہ باطنیت کی آڑ میں متصوفین نے بھت کچھ غلط گڑھ لیا تھا مگر چند لوگوں یا کسی ایک گروہ کے ایسا کرلینے سے بذات خود تصوف غلط نھیں ھوجاتا (ایسی بھت سی رطب و یابس تو متکلمین و فقھا کے یھاں بھی مل جاتی ھے)۔ چنانچہ تصوف کے مباحث میں ایسا ھی ایک قابل اعتراض و نزاعی مسئلہ (جسے یہ ناقدین خوب اچھالتے ھیں) وہ ھے جسے ابن عربی نے پیش کیا کہ "ولی کا درجہ نبی کے درجے سے بالا تر ھے"، نیز "ختم نبوت کے بعد بھی غیر تشریعی نبی کا سلسلہ جاری ھے"۔
ان عبارات کے مصداق کو سمجھنے کے لئے پھلے یہ سمجھنا چاھئے کہ اس مخصوص عقیدے کے بیان میں ابن عربی ولایت و نبوت سے کیا مراد لیتے ھیں۔ ایک عبارت کے معنی کی وھی تعیین درست ھوتی ھے جو خود متکلم کی اپنی اصطلاحات میں بیان کی جائے، نہ یہ کہ اس میں استعمال کئے گئے الفاظ کو کسی دوسرے معنی پر محمول کرکے عبارت کے معنی اخذ کرلئے جائیں۔ چنانچہ ابن عربی کھتے ھیں کہ پیغمبر کی دو جھات یا حیثیتیں ھیں: 
- ایک وہ جسکا تعلق "بطور عارف" خدا اور اسکی اسماء و صفات میں تدبر سے ھے، اسے وہ ولایت (یا نبوت عامہ، اسکی تشریح بعد میں آتی ھے) سے تعبیر کرتے ھیں 
- دوسرا پھلو "بطور شارع" بندوں کی اصلاح و تزکیہ اور تھذیب تمدن سے ھے، اسے وہ "نبوت" کھتے ھیں۔ 
یھاں قابل غور بات یہ ھے کہ ابن عربی ولایت کو نبوت کا ایک پھلو قرار دیتے ھیں، اسکا حریف و مدمقابل نھیں۔ چنانچہ دوسرے پھلو کے اعتبار سے وہ واضح طور پر ختم نبوت کے قائل ھیں ("وحی محمد قد انقطعت فلا نبی بعدہ")۔ ختم نبوت سے وہ یہ مراد لیتے ھیں کہ اب کوئی اور شارع آنے والا نھیں جسکا قول و فعل شریعت و حجت قرار پائے۔
البتہ انکے خیال میں ولایت (نبوت عامہ) کی حیثیت ایک پھلو سے نبوت سے مختلف ھے، یہ اللہ تعالی سے ایسا تعلق ھے جو دنیا و آخرت دونوں میں جاری و ساری ھے، لھذا یہ دائمی و غیر منقطع ھے جبکہ نبوت (تشریع) اب منقطع ھوچکی۔ ولایت (نبوت عامہ) کا یھی وہ پھلو ھے جس سے وہ ولایت (نبوت عامہ) کی نبوت پر گوں نا گوں ایک پھلو سے برتری ثابت کرتے ھیں۔ اسکے علاوہ ولایت کے نبوت پر فوقیت کے اور کوئی معنی نھیں۔
دراصل ابن عربی ختم نبوت سے پیدا ھونے والی ایک گتھی کو سلجھانا چاھتے تھے۔ وہ گتھی یہ تھی کہ کیا ختم نبوت کا معنی یہ سمجھا جائے کہ اسکے بعد عرفان خداوندی کا سلسلہ اپنے بندوں پر ختم ھوچکا؟ کیا ختم نبوت کے اس عقیدے سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی نہ ھوگی جو خلوص و دیانتداری سے معرفت خداوندی کے درجات میں بلندی چاھتے ھیں؟
اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ابن عربی ختم نبوت کی تین جھات متعین کرتے ھیں۔
الف) ایک جھت اللہ تعالی کے فیضان ربوبیت کی ھے ۔۔۔۔۔ اس اعتبار سے سوال یہ ھے کہ کیا اب خدا کی نوازشیں آئندہ کسی شخص کی طرف متوجہ نھیں ھوں گی؟ 
ب) دوسری جھت بندگی و ذوق عبادت کی ھے ۔۔۔۔۔ اس میں حل طلب سوال یہ ھے کہ کیا ختم نبوت کے بعد بندوں پر روحانی ارتقا کے تمام دروازے بند کردیئے گئے ھیں؟ 
ج) تیسری جھت تھذیب اخلاق و تمدن کی ھے ۔۔۔۔۔ کیا اسکا مفھوم یہ ھے کہ آئندہ فقہ و تفنین کے لئے کوئی زحمت برداشت کرنے کی ضرورت نھیں ھے؟
ان تینوں سوالوں کا حل انکے خیال میں یہ ھے کہ ولایت (نبوت عامہ) کے اس تصور کو مان لیا جائے کہ خدا کی نظر کرم اب بھی اپنے بندوں کو الھام و کشف کے ذریعے علوم و معارف سے بھرہ مند کرتی ھے، اب بھی ذوق عبادت اس لائق ھے کہ بندہ روحانی ارتقاء کی منازل کو طے کرتا چلا جائے، اسی طرح اب بھی فقہ و تفنین کے ذریعے مسائل کا استنباط ھوتا رھے گا (البتہ اب کوئی شارع نھیں آئے گا)۔ ولایت کو انھی معنی میں ابن عربی مجازا نبوت عامہ سے تعبیر کرتے اور اسکے جاری رھنے کے قائل ھیں کہ اسکے فرائض میں اجتھاد کے پیمانوں کو دریافت کرنا یا بذریعہ کشف جان لینا ھے۔ چنانچہ اس بارے میں وہ یوں رقمطراز ھوتے ھیں: 
"فابقی لھم النبوۃ العامۃ التی لاتشریع فیھا وابقی لھم التشریع فی الاجتھاد فی ثبوت الاحکام" (خدا نے نبوت کے بعد مخلوق کے لئے نبوت عامہ کو باقی رکھا جس میں (وحی پر مبنی) تشریع شامل نھیں، البتہ ان کے لئے جس تشریع کو جاری رکھا وہ اجتھاد سے متعلق ھے جسکے ذریعے احکامات ثابت کئے جاتے ھیں)۔
پس معلوم ھوا کہ ابن عربی ولایت کو مجازا نبوت عامہ کھتے ھیں بالکل اسی طرح جیسے وہ اجتھاد کو مجازا تشریع قرار دیتے ھیں (حالانکہ اجتھاد "حقیقی معنی" میں تشریع نھیں جیسا کہ وہ خود بھی فرماتے ھیں)۔ اس تفصیل سے یہ نکتہ بھی صاف ھوجاتا ھے کہ ابن عربی کے یھاں جو "غیر تشریعی نبوت کے جاری رھنے کی" بات ملتی ھے وہ دراصل "مجتھد" کا منصب ھے جسے درج بالا تین پھلووں کے تناظر میں مجازا غیر تشریعی نبی کہہ دیا گیا ھے۔
درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ بات کھی جاسکتی ھے کہ اگرچہ ابن عربی کے اسلوب و انداز بیان سے اختلاف کیا جاسکتا ھے (کہ انھیں نبوت و تشریع جیسی ٹھیٹھ دینی اصطلاحات میں ولایت و اجتھاد جیسے نظریات بیان نھیں کرنا چاھئے تھے) مگر اسکی بنا پر ان پر اور اس سے بھی آگے بڑھ کر تصوف ھی پر ختم نبوت کے منکر ھونے کا الزام دھر دینا شاید پوری بات سمجھے بغیر لب کشائی کرنے کے مترادف ھے۔
واللہ اعلم بالصواب
(زاہد مغل)























فرنود عالم کی پوسٹ اور میرا کمنٹ

’’تصوف اور تصفیہ‘‘
تصوف کی بحث گرم ہے۔ اتنی گرم کہ فیس بک کی کسی دیوار سے ٹیک لگانا محال ہوگیاہے۔ گزشتہ شب برادر نعمان بخاری صاحب نے پوسٹ کی۔ دیانت داری کے ساتھ اس کے پوائنٹس سامنے رکھتا ہوں
۱۔ تصوف کوئی فقہی بحث نہیں کہ رسالت مآب کے زمانے میں اس کی مثال یا دین کے اصولوں میں اس کی بنیاد ڈھونڈی جائے۔
۲۔ تصوف میں بگاڑ بعد کے نام نہاد اہل تصوف نے پیدا کیا
۳۔تصوف صرف اور صرف خدا تک رسائی کا ایک عمل ہے، جو شریعت سے متصادم نہیں ہے۔
۴۔ تصوف کا کوئی عمل اگر شریعت سے متصادم ہو ، تو ترک کر دیا جائے
۵۔وحدت الوجود در اصل یہ ہے کہ قائم بالذات صرف واحد ہے باقی سب نابود۔
۶۔کسی شعبدے باز کے کرتب اور چھو منتر کو دیکھ کر تصوف کے بارے میں رائے قائم کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
۷۔قاری حنیف ڈار صیب تصوف کے حوالے سے بے سرو پا باتیں کر رہے ہیں اور گمراہی پھیلا رہے ہیں۔
برادر نعمان کی پوسٹ پہ میں نے ایک تفصیلی کمنٹ کیا جس کا حرفِ آغاز یہ تھا
’’میرے خیال سے قاری صیب کی باتوں کو بے سرو پا کہنا اور ان کی بات کو سننے والوں پہ گمراہی کا خدشہ ظاہر کرنا درست نہیں‘‘
میرا یہ کمنٹ خاصی لمبائی و چوڑائی رکھتا ہے،مگر مبہم ہونے کی وجہ سے دوستوں کا اصرار ہے کہ اس کی تفصیل بیان ہو۔ نعمان بخاری صاحب کا جواب بھی جوابِ آں غزل کا تقاضا کر رہا ہے۔
نعمان بخاری کے سات پوائنٹس اور میرا خیال۔۔!!!!!
بات یہ ہے کہ ۔۔!!!
تصوف کے بارے میں ظاہر ہے کہ انہی صوفیا کے کہے اور لکھے پہ رائے قائم کی جائے گی جن پہ صوفیا کے تمام سلسلوں اور زمانوں کا اتفاق موجود ہے۔ جن صوفیا کے اصولوں پہ تصوف کا ادارہ قائم ہے، انہی کی بات معتبر ہوگی۔ اب جو معتبر ہیں وہ کون ہیں۔؟وہ یہ ہیں
حسن بصری، حارث المحاسبی، بایزید بسطانی، جنید البغدادی، شیخ فریدالدین عطار، ابن عربی، ابو اسماعیل الحروی، امام غزالی، شہاب زہری، شیخ سرہندی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ اسماعیل شہید وغیرہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا لٹریچر اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔
آپ نے کہا۔!!
وحدت الوجود کی تعریف یہ ہے، جو آپ نے بیان کردی۔ اس پہ آپ مزید گرہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس تعریف کو بگاڑا گیا ۔
اب سوال یہ ہے۔!!
کیا اس تعریف کو بگاڑنے والے ابو اسماعیل الحروی ہیں۔؟ کیا شاہ اسماعیل شہید ہیں۔؟ جس تعریف کو آپ بگڑی ہوئی تعریف کہہ رہے ہیں وہ تو امام الحروی اور امام شاہ اسماعیل کے لٹریچر میں ملتی ہے۔ جو تعریف آپ نے کی، اس کا تو اس سے کوئی تعلق ہی قائم نہیں ہوتا۔ اب امام الحروی اور شاہ اسمعیل کو نام نہاد تو اس لیئے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کا لٹریچر اگر مائنس کر دیا جائے، تو تصوف کا پورا ادارہ دھڑام سے زمین پہ آن لگے گا۔
آگے چلوں۔؟؟
ٹھیک ہے مان لیا کہ تصوف کوئی فقہی بحث نہیں ہے، چنانچہ اس کی بنیادیں شریعت یا دین کے اصو لوں میں تلاش نہ کی جائیں۔ آپ نے ایک جگہ اس کو صرف ونحو سے بھی تشبیہ دی۔
اب سنیں سوال۔۔!!!
’’اگر تصوف کے ادارے کے بانیان کہتے ہوں، کہ توحید کے تین مدارج ہیں جس کا پہلا درجہ کلمہ طیبہ ہے اور آخری درجہ وحدت الوجود ہے، تو کیا میں یہ سوال نہیں کروں گا کہ رسالت مآب نے دعوتِ توحید انہی مدارج پہ دی تھی۔؟’’
بات سمجھ نہیں آئی۔؟ مزید وضاحت کرتا ہوں۔
’’یہ تمام اکابر صوفیا کہتے ہیں کہ یہ جو کلمہ ہے یہ عام سی توحید ہے جس کا تعلق عام لوگوں سے ہے۔ توحید کا دوسرا درجہ بھی ہے جس کا تعلق خاص لوگوں سے ہے۔ توحید کا تیسرا درجہ بھی ہے جو ان خاص لوگوں میں بھی چیدہ چنیدہ لوگوں کیلئے ہے‘’
پھر سوال۔۔!!
کیا رسالت مآب کی دعوت توحید عام اور خاص میں تقسیم تھی۔؟
آپ کہیں گے کہ۔۔!!
’’ توحید کے مدارج طے کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟؟’’
میں عرض کروں گا کہ بات یہاں تک رہتی نہیں ہے۔ انہی اکابر صوفیا کا نقطہ نظر اگر یہ ہو کہ
’’توحید کے آخری درجے کا ایڈوانس لیول یہ ہے کہ انسان اس مقام سے جا کر علم حاصل کرنے لگتا ہے، جہاں سے انبیا کو ملتا ہے‘‘
تو کیا میں اس غیر معمولی نقطہ نظر کی بنیاد دین کے اصول میں تلاش نہیں کروں گا،۔؟ اگرآپ اصرار کریں تو وحدت الوجود اور اور نظریہ توحید پہ ناقابل ہضم مواد مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کروں۔؟ اگر ضرورت ہے،تو بتائیں۔
دیکھیں بات سنیں۔۔!!
صوفیا کا ڈسکورس ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اور یہ کہ یہ صوفیا نام نہاد نہیں بلکہ تصوف کے بانی و امام ہیں۔ ابن عربی کے چند اقتباسات خود آپ کیلئے بھی ناقابل ہضم ہوں گے۔ وہ تو رسالت مآب سے بھی دو قدم آگے سے ہوکر واپس آتے ہیں۔ شہاب زہری کے فرمودات و ارشادات کو ہضم کر نے کیلئے لکڑ ہضم پتھر ہضم قسم کا ہاضمہ درکار ہے۔ امام الحروی کی فلاسفی کو قبول کرنے کیلئے شریعت کے ادارے کو پشت کرنے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ امام شاہ اسماعیل کو پڑھ لیں۔ میں کتاب کا نام نہیں لے رہا مگر ان کی تقویۃ الایمان کے علاوے کا لٹریچر پڑھیں، جو تصوف پہ مبنی ہے۔ ایک عام انسان تو کیا، اگر کسی مسلک کا فاضل بھی بلا تعصب پڑھے تو یقینا فکری کومے میں چلا جائے گا۔ پھر یہ بھی تو دیکھیں نا کہ امام غزالی کے تصور توحید کو امام ابنِ تیمیہ کس طمطراق کے ساتھ آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ امام ابن قیم کو دیکھ لیں کہ وہ تصوف کے تمام بانیان کو کس شد ومد کے ساتھ قلم کی نوک پہ رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ابن تیمیہ اور ابن جوزیہ کا کہا غلط ہو،مگر کیا انہیں گمراہ کہنا ٹھیک ہوگا۔؟ اگر نہیں، تو قاری صیب کو گمراہ کہنا یا بے سرو پا کہنا کیوں ٹھیک ہوگا۔ ہمیں سنجیدگی سے اس بات پہ غور کرنا ہوگا کہ سولی چڑھنے والے منصور کو منصور حلاج کس چیز نے بنایا۔؟ ظاہر ہے جنید بغدادی کے اس ایک خط نے بنایا جو غلطی سے کسی اور ہاتھ لگا اور چلتے چلاتے منصور تک پہنچ گیا۔ موجود فارمولوں کو جب منصور نے خود پہ اپلائی کیا، تو کہاں کا منصور کہاں کا ہوگیا۔ آخر جنید بغدادی اپنے تجربات چھپانے پہ مجبور کیوں تھے۔؟ شریعت کا ادارہ ان کے خلاف کیوں کھڑا ہوگیا تھا۔؟ جب عباسی خلیفہ نے انہیں طلب کیا، تو انہوں نے اپنے فارمو لے گدی کے نیچے چھپا کر کیوں کہا کہ ’’میں تو شریعت کا ایک عالم ہوں میرا ان چیزوں سے کیا واسطہ‘۔۔ کچھ تو تھا کہ جس کی پردہ داری تھی صاحب ۔۔!!! میں ایک اور جسارت کرتا ہوں۔
جان کی امان پاؤں تو گستاخی کر جاؤں۔؟؟؟
غلام احمد قادیانی کو کس چیز نے اس مقام تک پہنچایا، جس کا تذکرہ ان کے لٹریچر میں ملتا ہے۔؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ غلام احمد قادیانی ایک نامور صوفی تھے۔ ؟جانتے ہیں۔؟ میرا ماننا یہ ہے کہ غلام احمد قادیانی کی ریاضتوں اور صوفیا کی بتائی ہوئی مشقوں میں کوئی فرق نہیں۔ نبوت والے اس خاص درجے تک غلام احمد قادیانی کو تصوف کے مدارج نے پہنچایا تھا۔ یہ مدارج نام نہاد صوفیا نے نہیں، بلکہ بانیان نے طے کیئے ہیں۔ میں ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مہدیت و نبوت کے دعوے اکثر تصوف کے ادارے سے وابستہ شخصیات سے سرزد ہوئے۔ کیا آپ ہی کے زمانے کے ریاض گوہر شاہی چلہ کش اور سکہ بند صوفی نہیں تھے۔؟ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒ کی جن عبارتوں کی آج تک صفائی دی جاتی ہے، کیا ان عبارتوں نے تصوف کے مدارج سے جنم نہیں لیا،۔؟ مذکورہ تینوں شخصیات کو اپنے اپنے پیروکار ملے ہیں۔ تینوں کے پیروکار ان کے کلام کو تصوف کے مدارج میں کھڑے ہوکر ہی ٹھیک سمجھتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے۔ آخر صوفی تمام تر احتیاطوں کے باوجود بھی سماج سے بہت با لاتر کیوں ہوجاتا ہے۔ اس کی تجلیات ہمارے لیئے ناقابل برداشت کیوں ہوجاتی ہیں۔؟ یہ رسالت مآب کی طرح سماج کا ایک فرد کیوں نظر نہیں آتے۔؟ کیا رسالت مآب ایک نبی ہو کر بھی کبھی ایک الگ مخلوق نظر آئے۔؟ اگر نہیں تو پھر صوفیا کیوں کوہِ طور بن جاتے ہیں۔؟
خیر کیا کہوں۔۔!!
یہ لمبی بحث ہے جس سے گریز لازمی سمجهتا ہوں. اس گریز کی وجہ بتاتا ہوں
خدا کا حصول یا معرفت انسان کے ذاتی تجربات کا ایک حصہ ہے۔ جب ایک معاملے میں آپ اور خدا تنہائی میں ہوں تو اس وقت بیتنے والے تجربات ایک حقیقت ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال وحدت الوجود کے شدید ناقد تهے مگر خود آخر میں وہ اسی طرف چلے گئے۔ حقیقت توخیر یہ ہے، مگر اس حقیقت کو پبلک کرنا شریعت کے ادارے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ یہ تجربات آپ کے بهی ہوں گے میرے ساتھ بهی ہوتے ہیں، مگر یہ سب جو کل رات آپ کے ساتھ ہوا اور یہ سب جو تنہائی میں میرے ساتھ ہوا اسے آپ اور میں ہی سمجھ سکتے ہیں۔ منصور حلاج کے معاملے میں خود آپ نے کہا کہ اس کی بات ٹھیک تھی مگر کہی غلط موقع پہ۔ وہ کیفیت تھی عقیدہ نہیں تھا۔ یہی میں عرض کر رہا ہوں کہ کیفیتوں کو تشکیل دے کر کوئی ادارہ قائم ننہیں کیا جا سکتا۔ اپنی روحانی کیفیات اور تجربات کسی اور کو سمجهانے کی کوشش کریں گے تو ہم شریعت کے متوازی ایک اور ادارے کو وجود میں آنے سے کبهی بهی نہیں روک سکتے۔ ہاں اپنے تخلیقی تجربات و وکیفیات دوسروں سے بیان کرنے سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ تخلیقی تجربات کا مذھب سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ صوفیا کے تجربات بہت قیمتی ہیں، مگر ستم یہ ہوا کہ وہ تجربات پبلک ہوگئے۔ اب تصوف کے ادارے کے ساتھ جو ہوا ہے وہ کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے۔ یہ تصوف کا لازمی نتیجہ تھا جو ہم بچشمِ سر دیکھ رہے ہیں۔ میں ملنگوں کی بات نہیں کر رہا، شعبدہ باز بھی میرے پیش نظر نہیں ہیں، میں ان سنجیدہ خانقاہوں کی بات کر رہا ہوں جن کی اندرونی ریاضتیں خاصی تسویشناک ہوچکیں۔ میں پهر کہوں گا اہل تصوف پہ کوئی سوال نہیں، مگر اس ریاض میں وہ طبقہ شامل ہوگیا جسے شریعت کی شناخت تو خیر تهی ہی نہیں، تصوف سے بهی وہ ناواقف تهے.

اب کہتا ہوں۔۔!!!
جو موقف آپ کا ہے اس کی میں حوصلہ افزائی کرتا ہوں. وجہ.؟
وجہ یہ ہے کہ صوفیا کے متنازعہ اور شریعت سے متصا دم اصولوں سے آپکو کوئی سرو کار نہیں۔ نہ ہی آپ اس کا بیان کرتے ہیں۔ صرف تزکیہِ اخلاق اور تطہیرِ نفس تک کود کو محدود رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہے، اور ظاہر ہے کہ ایسا ہی ہے، تو پھر تصوف کے ناقدیں کو ہتھ ہولا ہی رکھنا چاہیئے۔ تصوف کے معاملے میں اگر کوئی جادۂِ اعتدال پہ کھڑا ہے، تو اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیئے۔ احترام تو اس بودھسٹ کا بھی ہونا چاہیئے جو یوگا کی ریاضتوں میں خدا کو تلاش کر رہا ہے۔ کہیں بھی ہے، کوئی بھی ہے،کچھ بھی ہے ’’تلاش تو ایک خدا کی ہے نا صاحب‘‘۔۔
عرض کرتا ہوں ۔!!
جب تصوف کے اصولوں پہ بات ہوگی، تو پھر اصول وہی رہیں گے جو اصول کی کتابوں میں بیان کیئے جا چکے۔ آپ کے تصور کو تصوف کا ترجمان نقطہ تسلیم نہیں کیا جا سکے گا۔ اب وہ ٹھیک ہے یا غلط،مگر تصوف ایک خاص ادارے کا نام ہے۔
اب ایسا ہے۔۔!!!
اگر کوئی تصوف کے ادارے پہ نقد کرے گا، تو اس کا مقصد گمراہی کی ترویج نہیں ہوگا، بلکہ اس کامقصد اپنی دانست میں ٹھیک اور غلط کی نشاندہی ہوگا۔۔
اپنا بتاؤں۔؟؟؟
اپنے احساس میں تصوف کی لطف اندوزیوں کا میں قائل ہوں۔ 
اپنی طبعیت میں، تصوف کی طرف میں خود میں کشش پاتا ہوں۔ 
اپنی فکر میں مگر میں اس طرف پیش قدمی نہیں کر پاتا۔
کیوں۔۔!!
وہی اصولوں کا ٹکراؤ۔ وہی فارمولوں کا تصادم۔۔
میں تصوف کے بیشتر اصولوں کو نہیں مانتا، مگر تصوف کی حقیقت کو محسوس کرسکتا ہوں۔ تصوف کی مثال خوشبو جیسی ہے۔ اسے محسوس کر سکتے ہیں۔ بیان نہیں کرسکتے۔ بیان میں نقصان ہے۔
حرف آخر۔۔!!
’’ہر وہ شخص صوفی ہے، جس کا خدا سے تعلق غیر مشروط ہی نہیں، بلکہ بے تکلف بھی ہے‘‘
رہے بس نام خدا کا ۔۔!!

میرا کمنٹ ــــــــــــــــــ
کہنا بھی ضروری ہے، کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔۔ :( 
جب اس طرح کے اعتراضات سامنے آتے ہیں، تو صوفی کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں۔۔ یا تو وہ خاموش رہ کر فتویء کفر سہے یا زبان کھول کر دار کو گلے لگا لے۔۔ میں انتہائی محتاط انداز میں کچھ باتیں کہوں گا۔۔ سمجھ میں نا آئیں تو کوئی بات نہیں۔۔
انبیاء نے جن شرعی امور و اشیاء کی بابت بتایا،، اگر اللہ چاہے تو کسی بندے کو بطور انعام وہ دکھا سکتا ہے،، مثلاً گناہ کی ظلمت، نیکی کا نور، شیاطین، فرشتے، عالمِ امر وغیرہ۔۔ اب اس شخص سے شرعی دلیل طلب کرنا عبث ہے کیونکہ یہ اسکا اور اسکے رب کا معاملہ ہے۔۔ جن صوفیاء کے آپ نے نام لکھے،، شرعاً ان پر گرفت ہو سکتی ہے مگر عنداللہ وہ مقرب ہیں۔۔ جو شخص اس راہ سے نہ گزرا ہو، وہ ان باتوں کو سمجھنے کا مکلف نہیں،، بلکہ صوفیاء کو اپنے مکاشفات اپنے تک ہی رکھنے چاہئیں۔۔ جس بات کا آپ نے ذکر کیا کہ میں تصوف کی لطف اندوزیوں کا قائل ہوں،، یہ تصوف نہیں بلکہ کسی بھی حساس شخص کے احساسات ہو سکتے ہیں جس میں وہ قربِ الہیٰ کو محسوس کرے۔۔ ان بلندیوں پرعملاً پہنچنا، انکو تھامے رکھنا، اور مزید ترقی کرتے رہنا تصوف ہے جو کسی کامل کی راہنمائی کے بغیر ممکن نہیں۔۔ کیفیات کو زدِ تحریر میں لایا جائے تو مخاطب اپنے فہم کے مطابق نتیجہ اخذ کرے گا جبکہ مقرر کی مراد کچھ اور ہو گی۔۔ صرف ایک مثال عرض کرتا ہوں جسے شاید ہی کوئی جانتا ہو۔۔ روح کے عالمِ امر میں سفر کے دوران منازلِ عرش میں چالیس سے زیادہ دوائر ہیں جن میں چھتیسواں دائرہ 'دائرہ نبوت' ہے۔۔ اس میں جب کوئی سالک داخل ہوتا ہے تو عوام یہ سمجھتی ہے اس شخص نے دعوئ نبوت کر لیا معاذ اللہ۔۔ حالانکہ یہ درست نہیں،، اسکو یوں سمجھئے کہ کوئی بندہ بطور خادم یا اجیر کسی بادشاہ کے دربار میں داخل ہو،، تو کیا وہ خادم/نوکر بادشاہ کہلائے گا؟۔۔ صوفیاء تحدیثِ نعمت کے طور پر ان باتوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ مخلوق ان سے راہنمائی لے اور فیضِ نبوت حاصل کرے، مگر لوگوں کی ناسمجھی انکے گلے کا پھندہ بن جاتی ہے۔۔ یہی حال وحدۃ الوجود کا ہوا ہے۔۔ ضرورت ہے کہ ان باتوں کو کانٹ چھانٹ کر عوام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ بھی اس لطف و کرم سے بہرہ مند ہوں،، بجائے اس کے کہ لٹھ لے کر کسی کے پیچھے پڑے رہیں۔۔
مرزا غلام قادیانی ملعون صوفیاء سے متاثر تو ضرور ہو سکتا ہے، مگر وہ صوفی نہ تھا بلکہ عالمِ دین تھا۔۔ اسکو بخوبی علم تھا کہ مجھے کس کی ایماء پر اب کیا دعویٰ کرنا ہے۔۔ مزید لکھنے کی سکت نہیں۔۔ جو چاہے آپکا حسنِ کرشمہ ساز سمجھے۔۔ کسی کو حاجت ہو تو وہ 'کنزالطالبین' اور 'دلائل السلوک' جیسی نابغۂ روزگار کتب کا مطالعہ کرے۔۔ لیکن تصوف پڑھنے سے ہرگز ہرگز سمجھ نہیں آنے کا، یہ کرنے کا کام ہے۔۔ اگر کوئی نہ کرنا چاہے تو بھی شرعاً اس پر گرفت نہیں۔۔ اصل کام شریعتِ محمدی ﷺ کے سانچے میں خود کو ڈھالنا ہے جس کے لئے میں تصوف کو ایک مضبوط سورس سمجھتا ہوں۔۔ مگر گزارش ہے کہ تصوف کے نام پرغیرشرعی دھندوں اور گلیوں میں بیٹھے ٹھگوں کو تصوف اور اہلِ تصوف کا نام نہ دیا جائے۔۔ اجازت چاہوں گا۔۔!! 


















تصوف اور حتمی بات

امامِ دوراں، جناب جاوید احمد غامدی صاحب تو یہاں تک فرماتے ہیں، جس کا مفہوم میں یہ سمجھا ہوں کہ آپ کسی بھی ایسے شخص کو جو کلمہ طیبہ پڑھتا ہو، اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی دیتا ہو، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء مانتا ہو، تو آپ اس کے کسی غیر شرعی فعل کی بنا پر اسے کافر قرار نہیں دے سکتے جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو غیرمسلم ڈکلئیر نہ کر دے..!
مجھے لگتا ہے کہ نائب امامِ دوراں، جناب حنیف ڈار صاحب نے خفیہ طور پر امام صاحب سے یہ سند حاصل کر لی ہے کہ آپ کسی بھی گزرے مسلمان کو منافق، راہزن اور دین کا دشمن قرار دے سکتے ہیں..!
چلیں اس بات کو یہیں ٹھپ دیں.. آگے میرے چند سوال ہیں، غور سے سمجھیں.. 
آج سے پچاس سال بعد اگر کوئی شخص غامدی صاحب کی کتب سے کچھ اختلافی لائنز کوٹ کر لے تو کیا غامدی صاحب پر بھی فتویء نفاق و جہل لگے گا؟ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی وضاحت اُس شخص کے فہم سے بالا ہو اور غامدی صب ہی اس کا درست جواب دے سکتے ہوں (جو کہ تب عالمِ برزخ میں ہوں گے) تو کیا یہ بدگمانی کرنا جائز ہو گا کہ غامدی صاحب نے وہ بات کسی مغربی ایماء کے تحت کہی ہے؟
ظاہر ہے انکی بات کو قرآن و سنت پر پیش کیا جائیگا،، اگر معیاری نہ ہوئی تو مردود ورنہ مقبول.. ایسا ہی ہے ناں؟
دوسری بات یہ کہ کیا کسی مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گزرے ہوئے مشاہیرِ اسلام کی کسی بات کو انکی جہالت یا نفاق پر محمول کر انکی مشتہر تنقیص کرے؟
کیا ان اتقیاء و صلحاءِ امت سے اس بات کی توقع جائز ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے، سمجھے اور پرکھے بس ایویں ہی کچھ لکھ دیا جس پر وہ سمجھتے تھے کہ ہم عنداللہ جواب دہ نہیں ہونگے؟ اب آپ لوگ ہم اہلِ تصوف سے سینہ پُھلا کر یہ پوچھتے ہیں کہ اوئے صوفیو! بتاؤ تمہارے اسلاف نے یہ بات کیوں کہی اور اس کا کیا مطلب ہے؟
میرے میٹھے میٹھے غیر صوفی بھائیو! میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ہر شخص کی کیفیات جدا ہیں جن کو لفظوں میں ڈھالنا ممکن نہیں، اور اگر یہ کوشش کر بھی لی جائے تو خطا ہونا یقینی امر ہے.. یہیں چُوک ہوئی صوفیاء سے جس کا خمیازہ انہیں آپ کے طعن و تضحیک کی صورت میں بھگتنا پڑا.. میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ کا امتحان ہے جس میں شاید آپ خود کو فیل کرا کے ہی رہیں گے.. یہ کیفیات و محسوسات کسی مسلمان کا عقیدہ ہرگز نہیں ہیں.. عقائد کا ماخذ قرآن و سنت ہے.. آپ کو رد کو اختیار ہے مگر تشنیع کا نہیں.. کیا انکے کسی عمل یا انکی تفاسیر یا انکی شروحِ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد مانگنے، اسے الہ سمجھنے یا اسے امورِ کائنات میں مداخل سمجھنے کے داعی تھے؟ کیا وہ عصمتِ انبیاء کے علاوہ عصمتِ اولیاء کے بھی قائل تھے؟ یا انہوں نے کسی کو قبر پرستی کی تلقین کی ہو؟ یعنی عجیب بات ہے کہ آپ تو قرآن کا مدعا بالکل ٹھیک ٹھیک سمجھ گئے اور جو گزر گئے وہ بیچارے قرآن فہمی میں دھوکا کھا گئے.. چلیں خیر، گرمیوں کے روزوں میں ایسا ہو جاتا ہے.. اللہ آپکو ہدایت دے..!
آخری اور مکرر عرض ہے کہ تصوف تزکیہء نفس کا شعبہ ہے جس میں انعکاسی طریقے سے اصلاحِ قلب کی جاتی ہے.. یہ وہ نور ہے جسکے حصول سے انسان کی روح/باطن مضبوط ہوتا ہے،، جس سے بندہ نہ صرف لسانی و عملی بلکہ قلبی طور پر شریعت پہ پورے خلوص سے عمل کرنے کیلئے گامزن ہو جاتا ہے.. فقط قرآن کی تلاوت، تفہیم اور دیگر زبانی اذکار سے کسی کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے.. ہم نے روکا ہوا ہے آپکو یہ کرنے سے؟
متصوفین کو جو چیزیں حاصل ہوتی ہیں ان میں عبادات میں حد درجہ خشوع و خضوع، درجہء احسان اور بصیرتِ قلبی شامل ہیں.. آپ یہ چیزیں صحبتِ صالحین اور تربیتِ نفس کے بغیر جس دن پا لیں تو مجھے ضرور بتائیے گا، میں یہیں ہوں ان شاءاللہ.. اور چرسیوں/بھنگیوں کو صوفیاء سے تشبیہ دینے والو! آپ بھی سن لو کہ یقیناْ آپ اسی لائق ہیں کہ آپ ایسے ملنگوں سے ہی مستفید ہوں..!!
(خیر اندیش : محمد نعمان بخاری)